
ڈومیسائل گیم ، اعلیٰ سرکاری افسران کا دوہرا کھیل بے نقاب! پنجاب، کشمیر اور وفاقی اداروں میں دہرا روزگار، جعلی ڈومیسائل اور اختیارات کا کھلا استعمال پر ایف آئی اے میں تحقیقات کے لئے درخواست دے دی گئی۔
پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے والے متعدد اعلیٰ سرکاری افسران پر جعلی ڈومیسائل، سابقہ ملازمت چھپانے، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ یہ الزامات اگر ثابت ہو گئے تو یہ نہ صرف پاکستان پینل کوڈ بلکہ سول سروسز قواعد کے تحت بھی سنگین جرائم کے زمرے میں آئیں گے، جن پر فوری طور پر ایف آئی اے کی آزادانہ تحقیقات ناگزیر ہیں۔
ذرائع کے مطابق نبیل احمد 2023 کے CSS امتحان کے ذریعے کشمیر کے ڈومیسائل پر پاکستان پولیس سروس (PSP) میں شامل ہوئے، لیکن اس سے قبل وہ جون 2017 سے جون 2021 تک پنجاب پولیس میں سب انسپکٹر کے طور پر پنجاب ڈومیسائل پر کام کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے متعدد سرکاری امتحانات میں بیک وقت پنجاب اور کشمیر ڈومیسائل استعمال کیے، حتیٰ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بطور الیکشن آفیسر شمولیت کے وقت اپنی سابقہ ملازمت بھی ظاہر نہ کی جو کہ سروس رولز 1954 کے قاعدہ 18 اور PPC دفعہ 420 کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈی پی او کوٹلی عدیل احمد لانگریال اور ڈپٹی کمشنر گوادر حمود رانجھا نے ڈومیسائل ریکارڈ میں مبینہ مداخلت کر کے حقائق کو دبایا، جو PPC دفعہ 166 کے تحت جرم ہے۔
مزید انکشاف ہوا ہے کہ نبیل احمد نے دو پرائیویٹ پاسپورٹس بنوائے پہلا گجرات اور دوسرا منڈی بہاؤالدین سے جو کہ سرکاری ملازمین کے طرزِ عمل کے قواعد 1964 کی خلاف ورزی ہے۔
سدرہ اقبال 2016 سے ضلع منڈی بہاؤالدین میں پنجاب ڈومیسائل پر بطور سرکاری معلمہ کام کر رہی ہیں، لیکن اگست 2024 میں انہوں نے آزاد کشمیر PSC کے امتحان میں کشمیر ڈومیسائل استعمال کرتے ہوئے شرکت کی، بغیر NOC لیے جو کہ پنجاب سول سروسز قواعد 2014 کے قاعدہ 17 کی خلاف ورزی ہے۔
موجودہ سینئر سول جج کوٹلی، عقیل احمد نے 2017 میں پنجاب میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی کے طور پر پنجاب ڈومیسائل پر شمولیت اختیار کی، لیکن اسی سال استعفیٰ دے کر کشمیر ڈومیسائل پر سول جج بن گئے۔ یہ دوہرا دعویٰ AJK سول سرونٹس قواعد اور PPC دفعہ 420 کے تحت بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر، FPSC، IG پنجاب پولیس، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکرٹری تعلیم پنجاب اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو تحریری شکایات بھجوائی جا چکی ہیں، مگر تاحال کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
قانونی ماہرین کے مطابق، یہ کیس نہ صرف ڈومیسائل فراڈ بلکہ بین الصوبائی بدعنوانی نیٹ ورک کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر شفاف تحقیقات نہ ہوئیں تو یہ رجحان دیگر سرکاری بھرتیوں میں بھی بدعنوانی کی راہ ہموار کرے گا۔