NCCIA

نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی فہرست جاری، مگر کارروائی کہاں؟

آن لائن جوئے، فاریکس ٹریڈنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کا کھیل،اصل بینی فشریز کون؟

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے ملک بھر میں آن لائن گیملنگ، کھیلوں میں سٹہ بازی اور غیر قانونی فاریکس ٹریڈنگ میں سرگرم 46 موبائل ایپلیکیشنز کی فہرست جاری کردی ہے۔ ان ایپس میں نہ صرف کھیلوں پر جوا کھیلانے والی مشہور کمپنی 1xbet شامل ہے، جو پاکستان سپر لیگ اور اس کی بعض فرنچائزز کا اسپانسر ہے، بلکہ فاریکس ٹریڈنگ کے نام پر شہریوں کو لوٹنے والی درجنوں ایپس بھی موجود ہیں۔


سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایپس غیر قانونی ہیں تو پھر انہیں بلاک کیوں نہیں کیا گیا؟،اگر این سی سی آئی اے کے پاس فہرست موجود ہے تو کیا قانون کے مطابق ان ایپس کے خلاف کارروائی کیا کی گئی یہ خود بڑا سوال ہے؟،ان ایپس کے ذریعے چلنے والے بے نامی بینک اکاؤنٹس کو منجمد کیا گیا؟،جعلی کمپنیوں اور مزدور پیشہ افراد کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹس کے اصل بینی فشریز کی نشاندہی کی گئی؟،کیا ان نیٹ ورکس کو تحفظ فراہم کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف کوئی انکوائری کا آغاز ہوا؟۔


ان ایپلیکیشن کے لئے رقوم کی منتقلی کا منظم نیٹ ورک موجود ہے جس کی نشاندہی کے باوجود کارروائی کہیں نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق روزانہ لاکھوں روپے ایزی پیسہ، جاز کیش اور نجی بینکوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ اکاؤنٹس مزدور پیشہ افراد کے نام پر کھولے گئے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے پیچھے جعلی کمپنیاں اور اصل مالکان چھپے بیٹھے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان اکاؤنٹس کی ماہانہ رقوم کو یکجا کیا جائے تو یہ کروڑوں روپے بنتے ہیں، جو بینکنگ چینلز کے ذریعے بیرونِ ملک یا اصل مالکان تک منتقل کیے جاتے ہیں۔پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا 2016) کے تحت آن لائن جوا اور غیر قانونی فاریکس ٹریڈنگ قابلِ سزا جرم ہے۔

غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کون کون سے قانون کے تحت کارروائی ممکن ہے ؟قانونی ماہرین کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بے نامی یا جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم کی منتقلی منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔اسٹیٹ بینک ریگولیشنز کے تحت غیر لائسنس یافتہ فاریکس ایپس اور کمپنیاں غیر قانونی ہیں۔ماہرین کے مطابق، ان نیٹ ورکس میں ملوث سرکاری افسران پر سنگین فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے۔پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت دھوکہ دہی، فراڈ اور مجرمانہ ملی بھگت کے مقدمات درج ہونا لازم ہیں۔

اصل ملزمان کو تحفظ کون فراہم کررہا ہے؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سب کچھ سامنے آچکا ہے تو پھر صرف فہرست جاری کرنے پر اکتفا کیوں کیا گیا؟،کیا یہ فہرست عوام کو محض خبردار کرنے کا حربہ ہے جبکہ اصل ملزمان کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے؟،کیا یہ درست ہے کہ بعض ایپس کے مالکان خود نیشنل سائبر کرائم ایجنسی اور دیگر اداروں کے افسران کے فرنٹ مین ہیں؟۔

تحقیقات ڈاٹ کوم نے ان تمام سوالات کا جواب لینے کے لئے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عامر نواز گجر سے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔