
وفاقی اداروں کی دوغلی پالیسی، تائیوان مصنوعات کی رجسٹریشن، قومی خارجہ پالیسی اور آئین کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں؟
پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی اور ون چائنا پالیسی کے برعکس وفاقی اداروں کی جانب سے تائیوان سے درآمدات اور رجسٹریشن نہ صرف پاک۔چین تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ آئین اور ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کے فیصلے آئینِ پاکستان کے تحت وفاقی حکومت اور وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری ہیں، کسی بھی ماتحت ادارے کو اس کے خلاف اقدام کرنے کا اختیار نہیں۔اگر کوئی ادارہ وزارتِ خارجہ کی تحریری ہدایات اور پالیسی رہنما اصولوں کے برعکس قدم اٹھاتا ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 5 اور 90 کی خلاف ورزی شمار ہوگی۔ایسے اقدامات کو پاکستان پینل کوڈ کی شق 166 کے تحت پبلک سرونٹس کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جا سکتا ہے۔
’’تائیوان‘‘ کو الگ ریاست تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ براہِ راست تجارتی معاہدے کرنا پاکستان کے ریاستی مؤقف کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، جو قومی سلامتی ایکٹ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے 2008، 2013، 2016 اور 2021 میں واضح طور پر لکھا کہ تائیوان چین کا لازمی حصہ ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے سرکاری یا تجارتی تعلقات قومی مفاد کے خلاف ہیں۔
2005 کے پاک۔چین معاہدہ برائے تعاون و دوستی میں بھی طے کیا گیا کہ پاکستان کسی بھی صورت ’’دو چین‘‘ یا ’’ون چائنا، ون تائیوان‘‘ پالیسی کی مخالفت کرے گا۔
تائیوان کے پرچم، نمائندہ وفد یا سرکاری پاسپورٹ کو تسلیم کرنا نہ صرف سفارتی پالیسی کی خلاف ورزی ہے بلکہ چین کے ساتھ تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وزارت خارجہ نے متعدد بار نوٹیفیکیشن اور مراسلے کے زریعے واضح کیا کہ تائیوان سے آنے والے آلات کی رجسٹریشن ہو نہیں سکتی ہیں اور اس کی مثال ڈریپ کے اجلاس نمبر 31 جو 16 مارچ 2021 کو ہوا اس اجلاس میں تائیوان سے آنے والی مصنوعات کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کو منسوخ کیا گیا اور اس کے بعد تاحال ریاست نے تائیوان سے متعلق اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا یے تو کیسے ڈریپ کے حکام نے24 اپریل 2025 کو ہونے والے اجلاس نمبر 89 میں اسلام اباد میں اقبال اینڈ کو کے نام سے رجسٹرڈ ،لاہور میں واقع کارڈیک کئیر نامی فرم ،کراچی اے فیروز اینڈ کو اور میسرز مقصود برادرز کے مصنوعات کی منظوری دی اور یہ آلات ایسے بھی نہیں تھے کہ دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب نا ہوں تو پھر ایسی کیا مجبوری تھی کہ ان مصنوعات کو رجسٹرڈ کرنا لازم تھا۔
ان متنازعہ فیصلوں کے وقت ڈریپ کے سی ای او عبید اللہ خان تھے جبکہ میڈیکل ڈیوائسز ڈویژن کے ڈائریکٹر فخرالدین عامر تھے۔ بعد ازاں فخر الدین عامر کو صدر بیلا روس کی جانب سے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو بھیجی گئی شکایت کے نتیجے میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق فخر الدین عامر اور میڈیکل ڈیوائسز ڈویژن کے چند دیگر افسران، خصوصاً ڈپٹی ڈائریکٹر آصف اقبال، جو اب بھی عہدے پر موجود ہیں، ان بے ضابطگیوں میں مبینہ طور پر مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔
کسٹمز اور ڈریپ حکام نے کس قانون کے تحت تائیوان کے آلات کو کلیئر اور رجسٹر کیا؟۔جب وزارتِ خارجہ بارہا تحریری انتباہ جاری کر چکی تھی، تو ان اداروں نے اسے نظر انداز کرنے کی جرات کیوں کی؟۔کیا یہ عمل محض غفلت ہے یا باقاعدہ بدنیتی اور کرپشن پر مبنی فیصلے کا ہے؟۔
یہ معاملہ صرف انتظامی بے ضابطگی نہیں بلکہ پاکستان کی ریاستی پالیسی، آئین اور قومی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ایسے افسران کو صرف عہدوں سے ہٹانا کافی نہیں بلکہ ان کے خلاف ایف آئی اے اور نیب انکوائری ہونی چاہیے،عدالت میں سروس قوانین اور فوجداری قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے،
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو اس معاملے پر سخت نوٹس لینا چاہیے۔