Screenshot_2025_0807_220552

32 ارب کا فیس لیس اسسمنٹ اسکینڈل،کسٹمز ساؤتھ میں تبادلوں کا طوفان، اصل مجرم بے نقاب ہوں گے یا معاملہ پھر دب جائے گا؟

پاکستان کسٹمز کا فیس لیس اسسمنٹ سسٹم جو اربوں روپے کے نقصان کا باعث بنا، اب ادارے کے اندر ایک بڑے طوفان کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ صرف 8 فیصد گڈز ڈیکلریشنز کی آڈٹ رپورٹ نے 32 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کیا تو اعلیٰ حکام پر دباؤ بڑھ گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دباؤ اصل اصلاحات میں بدلے گا یا پھر سب کچھ حسب روایت دب جائے گا؟

گریڈ 22 کے سینئر افسر واجد علی کو چیف کلکٹر اپریزمنٹ ساؤتھ کا چارج دینا اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں قلیل مدت کے لیے یہ خصوصی مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ فیس لیس اسسمنٹ کی جانچ اور اصلاحات کریں۔ مگر کسٹمز حلقے کھلے عام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایک عارضی تقرری واقعی شفافیت لا سکتی ہے یا یہ بھی کرپشن کے بڑے چہروں کو بچانے کا ایک اور ڈھکوسلا ہے؟

یاد رہے کہ ایف بی آر کے اندرونی ذرائع نے اعتراف کیا کہ جولائی میں جاری ہونے والی پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن جب حقائق چھپ نہ سکے تو اعلیٰ عہدوں پر اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی: چیف کلکٹر، ڈی جی پوسٹ کلیئرنس آڈٹ اور ڈائریکٹر سب کو ہٹا دیا گیا۔ مگر کڑوا سوال یہیں ہے کہ کیا یہ تبدیلیاں انکوائری کو آگے بڑھائیں گی یا صرف وقت خریدنے کا حربہ ہیں؟

صورتحال اس وقت مزید مشکوک ہو گئی جب یعقوب ماکو کو بیک وقت پوسٹ کلیئرنس آڈٹ اور فیسلیٹیشن میکنزم کی سربراہی دے دی گئی۔ اس وقت پورے ایف بی آر میں سب سے زیادہ اختیارات رکھنے والے افسر کو ایک اور حساس ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ کسٹمز کے اندر یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ جس افسر کے ماتحت لوگ بارہا انکوائری کی زد میں آئے، اسی کو سب اختیارات دینا شفافیت نہیں بلکہ سسٹم کو کنٹرول کرنے کا مکینزم ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک نیا ایس آر او لانے کی بھی تیاری ہے جس کے تحت پی سی اے اور فیسلیٹیشن میکنزم کو کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے اختیارات بھی دیے جا سکتے ہیں۔ یعنی ایک ہی افسر کے ہاتھ میں پورا نظام جو کھلے عام اس تاثر کو جنم دیتا ہے کہ کسٹمز میں طاقت کی بندر بانٹ ہو رہی ہے، اصلاحات نہیں۔

مزید یہ کہ 15 دسمبر 2024سے 15 مارچ 2025کے درمیان غیر معمولی درآمدات کرنے والے امپورٹرز کی فہرست تیار کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ جبکہ وہ مشکوک کنسائنمنٹس اور رپورٹیں بھی دوبارہ کھنگالی جا رہی ہیں جو پہلے مسترد ہوئیں اور بعد میں مبینہ طور پر امپورٹر پروفائلز کو بچانے کے لیے کلیئر کر دی گئیں۔

پاکستان کسٹمز آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں یا تو تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل بے نقاب ہوگا، یا پھر ہمیشہ کی طرح اصل چہرے بچا لیے جائیں گے۔ واجد علی کی عارضی تعیناتی اصلاحات کی طرف پیش قدمی ہے یا صرف "کور اپ آپریشن اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔