Screenshot_2025_0807_220552

 

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے فیس لیس اسسمنٹ سسٹم میں 32 ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کی آڈٹ رپورٹ منظر عام پر آنے اور کسٹمز ساوتھ و پوسٹ کلیرنس آڈٹ کے اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے بعد نیا ایس آر او 1655 جاری کردیا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق اس اقدام نے شکوک و شبہات کو مزید گہرا کردیا ہے کہ آیا یہ اقدام محض نظامی اصلاح ہے یا اس کا مقصد اسکینڈل کی اصل تحقیقات کو پس پردہ ڈالنا ہے؟.

قانونی پہلو اور اہم نکات پر ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی دائرہ کار کا تعین نئے ایس آر او کے ذریعے ایف بی آر نے سابقہ ایس آر او 1114 اور ایس آر او 1494 کو منسوخ کرکے ڈائریکٹوریٹ جنرل پوسٹ کلیرنس و انٹرنل آڈٹ کا دائرہ کار ازسرنو متعین کیا ہے۔

 

ماہرین کے مطابق یہ اقدام اس وقت کے قوانین کے تسلسل کو توڑتا ہے جس کی آئینی حیثیت عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے۔قانون کے تحت آڈٹ رپورٹس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) اور متعلقہ عدالتی فورمز پر جوابدہی کا تقاضا کرتی ہیں اگر حالیہ 32 ارب روپے کی آڈٹ رپورٹ پر شفاف تحقیقات نہ ہوئیں تو یہ آئینی و قانونی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ ادارہ جاتی خودمختاری سے نئے ڈھانچے کے مطابق ہیڈ کوارٹر کراچی میں جدید ڈیٹا اینالیٹکس سینٹر اور آڈٹ مینجمنٹ سیل قائم کیا گیا ہے، تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان ادارہ جاتی اختیارات کا اطلاق آیا سابقہ گھپلوں پر ہوگا یا صرف مستقبل کی پالیسیوں تک محدود رہے گا؟۔افسران کے تبادلے اور شفافیت کے معاملے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر تبادلوں کے بعد ایس آر او کا اجراء شفافیت پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ قانوناً ایسے اقدامات "Conflict of Interest” کے زمرے میں آ سکتے ہیں، خصوصاً جب یہ تحقیقات کے نازک مرحلے پر سامنے آئیں۔ بین الاقوامی گائیڈ لائنز کی قانونی حیثیت: اگرچہ ایف بی آر نے اس ڈھانچے کو عالمی کسٹمز آرگنائزیشن (WCO) اور ڈبلیو ٹی او کی گائیڈ لائنز کے مطابق قرار دیا ہے، تاہم قانونی ماہرین کے مطابق بین الاقوامی گائیڈ لائنز محض Soft Law کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان پر انحصار مقامی قوانین کو بائی پاس کرنے کے مترادف ہوگا۔ماہرین کے مطابق کیا 32 ارب روپے کی آڈٹ رپورٹ پر آزادانہ تحقیقات ہوں گی یا نیا ایس آر او اسے دبا دے گا؟۔کیا افسران کے تبادلے جانبداری ختم کرنے کے بجائے تحقیقات کمزور کرنے کے مترادف ہیں؟۔کیا متاثرہ کمپنیاں، کلیئرنگ ایجنٹس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟۔ئے ایس آر او 1655 کے نفاذ نے ایف بی آر کو جدید خطوط پر ضرور استوار کیا ہے، لیکن اس کے قانونی پہلو اور وقت نے سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اگر 32 ارب روپے کی آڈٹ رپورٹ پر کارروائی نہ کی گئی تو یہ معاملہ نہ صرف آئینی عدالتی تنازع بلکہ ایک بڑے احتسابی بحران میں بھی بدل سکتا ہے۔