جامعہ کراچی کی اربوں کی زمین پر قبضے کی بڑی سازش بے نقاب ہوگئی، وائس چانسلر ، سینڈیکیٹ رکن اور اسٹیٹ افسر کو برطرف کئے جانے کا امکان ہے، نیا وائس چانسلر جامعہ کراچی کے باہر سے تعینات ہوگا،سندھ کا سسٹم قبضہ مافیا کی پشت پناہی کے لئے مکمل طاقت سے اثر انداز ہونے کے لئے تیار ہے۔

جامعہ کراچی کی اربوں روپے مالیت کی زمین پر قبضے کے گھناؤنے کھیل کا پردہ چاک ہوگیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس سازش میں مبینہ طور پر جامعہ کی اپنی انتظامیہ بھی ملوث نکلی۔ زمین پر قبضے کے بڑھتے اسکینڈلز کے بعد وائس چانسلر خالد عراقی، سینڈیکیٹ رکن معظم قریشی اور اسٹیٹ آفیسر نورین شارق کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نئے وائس چانسلر کی تقرری باہر سے کرنے کی تیاری مکمل ہے تاکہ سندھ کا طاقتور سسٹم اس قیمتی اراضی پر اپنا قبضہ آسانی سے جما سکے۔

ذرائع کے مطابق پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے زمین منتقل کرنے کا خفیہ منصوبہ چیف سیکرٹری سندھ کی ہدایت پر وقتی طور پر منسوخ تو ہوا، لیکن اس کے پیچھے موجود اصل مافیا اب مزید زور و شور سے سرگرم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ کے بااثر حلقوں نے سینڈیکیٹ رکن معظم قریشی کے ذریعے رجسٹرار آفس سے اشتہار جاری کروایا، جس میں جامعہ کی غیر استعمال شدہ زمین کمرشل استعمال کے لیے کمپنیوں اور برانڈز کو دینے کا اعلان کیا گیا۔

صورتحال اس وقت سنگین ہوگئی جب جامعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک پلاٹ پر کے ڈی اے نے اچانک قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایک چھوٹے پلاٹ پر تعمیرات کے لئے موجودہ ڈی جی کے ڈی اے کی دلچسپی قابل دید رہی اور وہ لمحہ لمحہ اس صورتحال کے لئے وہاں موجود لوگوں سے رابطے میں رہے جبکہ سابقہ ڈائریکٹر کے ڈی اے جمیل بلوچ اس جگہ از خود موجود تھے۔۔ تاہم طلبہ اور اساتذہ کی مزاحمت نے یہ قبضہ ناکام بنادیا۔ ذرائع کے مطابق یہ صرف ایک "ٹیسٹ رن” تھا تاکہ اصل قبضہ مہم سے پہلے ردعمل کا اندازہ لگایا جا سکے۔


باخبر ذرائع کے مطابق سندھ کا سسٹم اب پورے زور و شور سے کھیلنے آرہا ہے۔ پہلے مرحلے میں وائس چانسلر خالد عراقی کو ہٹایا جارہا ہے، جنہوں نے کنٹریکٹ پر 2026 تک رہنا تھا، مگر زمینوں پر قبضے میں ناکامی کے بعد ان کی رخصتی یقینی بنادی گئی ہے۔ دوسرے مرحلے میں معظم قریشی کو سینڈیکیٹ سے فارغ کرکے ان پر جامعہ کی حدود میں داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہی معظم قریشی وہ شخص ہیں جو ماضی میں بی اے امتحانات میں نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اور جرمانہ بھی بھگتا، مگر سندھ حکومت کی مبینہ آشیر باد اور وائس چانسلر کی پشت پناہی سے انہوں نے ایم اے، ایم فل اور اب پی ایچ ڈی تک رسائی حاصل کرلی۔ اس دوران وہ سینڈیکیٹ کے طاقتور رکن بھی بن بیٹھے۔ ان کے ساتھ اسٹیٹ آفیسر نورین شارق کو بھی ہٹا کر اصل محکمے میں واپس بھیجا جائے گا۔
باخبر ذرائع کے مطابق جامعہ کی اراضی پر قبضے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود زمین کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے منتقل کرنے کا خفیہ منصوبہ تیار کیا گیا، جسے وقتی طور پر منسوخ تو کیا گیا، مگر اصل قبضہ مافیا اب مزید شدت کے ساتھ سرگرم ہے۔
جامعہ کراچی کے اطراف قبضہ مافیا کئی برسوں سے سرگرم ہے اور چھوٹے پلاٹس پر قبضے بھی ہوچکے ہیں۔ تاہم اب اربوں روپے کی قیمتی اراضی پر قبضے کی سب سے بڑی اور منظم کوشش شروع کی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کا طاقتور سسٹم مکمل طور پر متحرک ہوچکا ہے اور اگر بروقت عدالتی و قانونی کارروائی نہ ہوئی تو جامعہ کراچی کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔