جامعہ کراچی کی اراضی پر سندھ کے سسٹم نے وار کردیا، جامعہ کے عقب میں کنیز فاطمہ سوسائٹی کے سامنے پیٹرول پمپ کی تعمیر کے لئے عدالتی حکم کو ڈھال بنایا گیا۔ سئینر سول جج ایسٹ کے حکم نامے پر اپیل کی تاحال زحمت نہیں کی گئی، جامعہ کراچی کی اراضی پر پیٹرول پمپ کی اراضی پر توہین عدالت سے بچنے کے لیے کارروائی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ایک جانب جامعہ کراچی کی اراضی کے تحفظ کے لئے ہر قسم کا اقدام اٹھانے کا حلف لیا جاتا ہے اور کمیٹی بنائی جاتی ہے، دوسری جانب ایک لوئر کورٹ کے فیصلے پر آنکھیں بند کر کے زمین دی جارہی ہے۔

جامعہ کراچی کی قیمتی اراضی پر سندھ کے مضبوط سسٹم کے ذریعے کوشش کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور جامعہ کراچی کے عقب میں واقع کنیز فاطمہ سوسائٹی کے سامنے جامعہ کراچی کی حدود میں چار دیواری کے اندر پیٹرول پمپ کی تعمیر کا کام عروج پر جاری ہے۔


واضح رہے کہ یکم ستمبر 2025 کو جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے مذکورہ مقام پر موجود افراد کو تنبیہ کی تھی کہ وہ یہ جگہ خالی کردیں کیونکہ یہ اراضی جامعہ کراچی کی ملکیت ہے تاہم افراد نے زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا اور جامعہ کراچی کے اسٹیٹ آفس کا حوالہ دے دیا۔ اس کے بعد دعویدار سید فاروق متین نے میسرز "حافظ پیٹرول” کے نام سے سینیر سول جج ایسٹ عتیق الرحمن کے پاس درخواست دائر کی اور عدالت کو بتایا کہ نا کلاس نمبر ایک دہییہ گرجو سیکٹر 22 اسکیم 33 گلشن اقبال کے وہ قانونی مالک ہیں اور جامعہ کراچی انہیں بے دخل کرنا چاہتی ہے اور پیٹرول پمپ کی تعمیر نہیں کرنے دی جارہی۔

11 ستمبر کو سماعت کے دوران جامعہ کراچی کے وکیل امیرالدین نے صرف وکالت نامہ جمع کرایا، دلائل نہیں دیے۔ سندھ حکومت کے ماتحت کسی ادارے کا نمائندہ بھی پیش نہ ہوا اور عدالت نے حکم دیا کہ 27 ستمبر تک پیٹرول پمپ کی تعمیر میں مداخلت نہ کی جائے۔ اس کے بعد پیٹرول پمپ کی تعمیر تیزی سے شروع ہوگئی اور لگتا ہے کہ اگلی پیشی سے قبل مکمل ہو جائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ عدالتی فیصلے کو جواز بنا کر زمین آسانی سے قبضہ مافیا کو دے گی یا اپیل کے ذریعے مزاحمت کرے گی۔؟
2022 میں بھی جامعہ کے عقب میں پیٹرول پمپ بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔اس واقعہ میں جامعہ کراچی کے گیٹ نمبر 2 کے ساتھ موجود شیخ زائد اسلامک سینٹر کے احاطے میں قائم فزیکل ہیلتھ ایجوکیشن میں امتحانی مرکز ختم کرنے پر منیر بلوچ نامی سپرٹنڈنٹ نے احتجاج کیا تھا اور اسی احتجاج میں اسٹیٹ افسر نورین شارق اور عالم کی نشست پر سینڈیکیٹ کے رکن بننے والے صاحبزادہ معظم قریشی پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے جامعہ کراچی کی زمین بیچ دی ہے اور اس پر پیٹرول پمپ کی تعمیر ہوگی اس دوران جامعہ کراچی کے انتہائی متنازعہ کنٹرولر ایگزامنیشن ڈاکٹر ظفر حسین نے منیر بلوچ کو منا لیا اور ان کا امتحانی مرکز بحال کردیا لیکن انہیں اگلے عہدے پر ترقی دینے کا وعدہ تاحال پورا نہیں کیا لیکن اس احتجاج سے وقتی طور پر پیٹرول پمپ کی تعمیر روک دی گئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اوگرا سے اجازت لی گئی؟ کیا پیٹرولیم کمپنیوں کو خطوط ارسال کئے گئے؟کیا ڈی سی ایسٹ اور لینڈ ریونیو سے ریکارڈ حاصل کیا گیا؟ جامعہ کراچی کی کمیٹی نے تاحال کیا کارروائی کی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ قبضہ مافیا کو اندرونی حمایت کس نے فراہم کی اور کس قیمت پر زمین قبضہ مافیا کو دی گئی؟
یہ تمام سوالات جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی خاموشی اور سندھ سسٹم کی طاقتور گرفت کو بے نقاب کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ قانونی لبادے میں زمین قبضہ مافیا کے حوالے کی جا رہی ہے۔
کے تمام رپورٹنگ حقیقت پر مبنی اور غیر جانبدارانہ ہوتی ہے