Screenshot_2025_0916_134725

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے زیر انتظام اسپتالوں میں اینول ڈیولپمنٹ پروگرام (اے ڈی پی) کے نام پر جعلی اور بوگس بلنگ کے ذریعے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچائے جانے کا سنگین انکشاف ہوا ہے۔ عباسی شہید اسپتال سمیت دیگر اسپتالوں کے ٹینڈرز میں طلب کیے گئے آلات صرف دستاویزات میں ظاہر کیے گئے اور آڈیٹر جنرل سندھ سے بھاری رقوم حاصل کر لی گئیں۔

حیران کن طور پر مبینہ طور پر تمام اسپتالوں میں ٹینڈر حاصل کرنے والی کمپنی ایک ہی نکلی۔ میزرز بائیو میڈیکل اسٹار انٹرپرائزز کو علیحدہ علیحدہ اسپتالوں میں آلات کی مرمت اور سپلائی کے ٹھیکے دیے گئے۔ سرکاری کاغذات پر میونسپل کمشنر افضل زیدی، کے ایم سی کے فنانشل ایڈوائزر اور سینئر میڈیکل افسر ڈاکٹر مہوش مٹھانی کے دستخطوں سے مزید مشکوک ہو گئی۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ عباسی شہید اسپتال کے لیے ایم آر آئی مشین کی مرمت کے نام پر 1 کروڑ 33 لاکھ روپے کا بوگس بل تیار کیا گیا،ایم آر آئی تاحال ناکارہ ہے،الرہشن تھیٹر میں لائٹس کا بوگس ٹینڈر ، ڈینٹل چئیر کی بھی سپلائی بوگس نکلی،گزری میٹرنٹی ہوم میں ڈوپلر کی سپلائی ظاہر کی گئی،رفیقی شہید اسپتال میں بھی بوگس بلنگ کی سپلائی ظاہر کی گئی اور یہ تمام بل بایومیڈیکل اسٹار انٹرپرائزز کے ذریعے منظور کرایا گیا جبکہ حقیقت میں گزشتہ الات کی منتقلی نہیں ہوسکی یے۔ مفت سہولت کے بجائے مریض نجی اسپتالوں میں فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں اور پرائیوٹ اسپتالوں کی چاندی ہو گئی ہے۔

کے ایم سی اسپتالوں میں طبی آلات کی عدم دستیابی نے شہریوں کو سرکاری سہولت سے محروم کر دیا ہے۔ مجبوراً عوام سندھ حکومت کے ماتحت اسپتالوں یا مہنگے پرائیوٹ اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری حکومت کے پاس فنڈز ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کو تنخواہیں وقت پر نہیں ملتیں، مگر دوسری جانب بوگس بلنگ کے ذریعے قومی خزانے کو بے رحمی سے لوٹا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر مہوش مٹھانی کا کہنا ہے کہ وہ صرف تین ماہ قبل تعینات ہوئی ہیں اور ان کے آنے سے پہلے ہی یہ فنڈز جاری ہو چکے تھے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کمپنی کو مکمل رقم نہیں ملی جس وجہ سے مرمت نہ ہو سکی، تاہم تحقیقات میں یہی بات سوالیہ نشان ہے کہ اگر مرمت نہیں ہوئی تو بل پاس کس قانون کے تحت ہوا؟

یاد رہے کہ مالی بے ضابطگی کا مخصوص دورانیہ ہے اور یہ مالی خوردبرد گزشتہ مالی برس کے دوسرے عشرے یعنی جنوری 2025 سے جون 2025 کے دوران سامنے آئی، جس میں عباسی شہید اور گزری میٹرنٹی اسپتال سمیت متعدد اسپتالوں میں کلر ڈوپلر اور دیگر آلات کی جعلی سپلائی ظاہر کر کے بھاری رقوم ہتھیائی گئیں۔

تحقیقات کا دائرہ بڑھنے کا امکان بائیو میڈیکل اسٹار انٹرپرائزز نے موقف دینے سے گریز کیا ہے، تاہم شواہد کے مطابق کے ایم سی کے سینئر افسران اور وینڈر عبدالباسط مبینہ طور پر اس اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہیں۔ سرکاری کاغذی کارروائی میں جعل سازی کے ذریعے خطیر رقم ہتھیائی گئی، جس پر مزید تحقیقات ناگزیر ہیں۔