پاکستان میں میڈیکل ڈیوائسز کی رجسٹریشن کے نظام میں سنگین دھاندلی، فراڈ اور بدترین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس نے مریضوں کی زندگیاں خطرات کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ وزارتِ صحت اور ڈریپ جیسے ریگولیٹری ادارے خود قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزیوں میں ملوث نکلے ہیں۔


تحقیقات نے پردہ اٹھایا ہے کہ غیر ملکی مینوفیکچررز اور پاکستانی ڈسٹری بیوٹرز نے گٹھ جوڑ کر کے ایک ہی ڈیوائس کو متعدد جعلی برانڈ نیم کے تحت پاکستان میں رجسٹر کروایا۔ یہ گھناؤنی اسکیم فری سیل سرٹیفکیٹ(ایف ایس سی) کے ناجائز استعمال سے چلائی گئی، جس میں جعلی نام درج کرا کے بھاری رقوم کے عوض سرٹیفکیٹ حاصل کیے گئے۔


قوانین کی صریح خلاف ورزی ، مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگائی گئی ہیں۔ ڈریپ کے اپنے قوانین کے مطابق شق 67 آؤٹ سورسنگ کی غلط تشریح، جس نے ڈسٹری بیوٹرز کو جعلی برانڈ رجسٹریشن کا لائسنس دے دیا۔شق 47 غیر ملکی مینوفیکچرر کا صرف ایک نمائندہ مقرر کرنے کی شق روند ڈالی گئی۔شق 48 درآمد کنندگان کی ذمہ داریاں ختم کر دی گئیں، کئی برانڈز کے تحت رجسٹریشن نے پورا نظام مفلوج کر دیا۔شق 49 کے بعد از مارکیٹ نگرانی (ویجیلنس) کا نظام مکمل طور پر ناکام، مریض بے یارو مددگار چھوڑ دیے گئے۔


ٹریس ایبلٹی کیوں ناکام ہے؟ اگر کسی ڈیوائس میں دنیا بھر میں نقص سامنے آئے تو پاکستان میں اس کی واپسی ناممکن کیونکہ وہ مختلف برانڈز میں بیچی جا رہی ہے۔
ویجیلنس کیوں ختم؟ نقصانات مختلف برانڈز میں بٹ جاتے ہیں، ڈریپ تک بروقت اشارے پہنچ ہی نہیں پاتے۔


اسٹار اے ایف، سیفٹی پرو: مقامی درآمد کنندگان کے برانڈ، چین کے مینوفیکچرر ریکارڈ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔گولڈن پلس، بی کیئر: مینوفیکچرر ویب سائٹس پر اندراج تک نہیں۔سی ایس کیور، لیو لائف، کمفرٹ کیئر: لوکل برانڈ نیم رجسٹرڈ، حالانکہ اصل کمپنی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں۔ ’’کمفرٹ کیئر‘‘ پہلے ہی ڈریپ کی 85ویں میٹنگ میں رجسٹر تھی، یہ ڈبل رجسٹریشن ہے۔زنفلون (مصر) الٹرافلون کے نام سے پہلے ہی رجسٹر ہونے کے باوجود نئے نام سے دوبارہ رجسٹر۔ایچ ٹی (ہیلتھ ٹیک): ایک ہی کمپنی کی پروڈکٹ کو مختلف برانڈ نیم سے رجسٹر کیا گیا۔


عالمی مینوفیکچرر کے اصل نام کو لوکل برانڈ کے طور پر رجسٹر کر کے انٹرنیشنل کاپی رائٹ اور ٹریڈ مارک قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔مزید مشکوک برانڈز: میڈیکےئر، زیبو، سائیبل، بیسٹ لائف، نیو میڈیکل، لائف کیئر، میڈیکو شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ مریضوں کی جانوں سے کھلا کھیل ہے۔ پاکستان عالمی معیار کی( ایچ ٹی ایف،آئی ایم ڈی آر ایف) سے خوفناک حد تک پیچھے جا رہا ہے۔
تمام فری سیل سرٹیفکیٹ کی از سرِ نو جانچ، آئی ایس او اور سی ای سرٹیفکیٹس سے موازنہ ضروری ہے،شق 67 کی درست وضاحت، جعلی برانڈ رجسٹریشن پر مکمل پابندی۔شق 47 کے تحت صرف ایک نمائندہ مقرر کرنے کا پابند بنایا جائے۔یونیک ڈیوائس آئیڈینٹیفکیشن سسٹم (ہو ڈی ائی) کا فوری نفاذ۔،فراڈ میں ملوث درآمد کنندگان پر بھاری جرمانے، رجسٹریشن منسوخی اور قانونی کارروائی ہونی چائیے۔
ڈریپ کی ملی بھگت اور وزارتِ صحت کی غفلت نے پاکستان کے ریگولیٹری نظام کو دنیا بھر میں بدنام کر دیا ہے۔ جعلی برانڈ نیم، دوہری رجسٹریشن اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہ صرف مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہیں بلکہ پاکستان کے عالمی وقار کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو میڈیکل ڈیوائسز ریگولیٹری سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو جائے گا۔
This is extremely sensitive topic I believe more investigations must have done before publishing to his article or news however I must appreciate that the topic is critical to highlight.