فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے فیس لیس اسسمنٹ سسٹم میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کی آڈٹ رپورٹ تیار کرنے والے گریڈ 19 کے افسر شیراز احمد کو تین ماہ کے لئے معطل کردیا۔

یہی ایف بی آر پہلے وہ افسر بدلتا ہے جس کی ماتحتی میں فیس لیس اسسمنٹ چل رہا تھا، پھر پوسٹ کلئیرنس آڈٹ (PCA) کا اضافی چارج ایسے افسر کو دے دیتا ہے جو پہلے ہی امپورٹ ایکسپورٹ کی نگرانی کر رہا ہے۔ تو سوال ہے: کیا کوئی افسر اپنے ہی کئے گئے گھپلوں کی رپورٹ حکام کو دے گا؟ یہ تو خود کو مجرم ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
اب صورتحال کھلی کتاب ہے کہ اگر پوسٹ کلئیرنس آڈٹ کی رپورٹ مشکوک تھی تو پھر سابق چیف کلیکٹر اپریزمنٹ ساؤتھ ناصر جمیل کو کیوں ہٹایا گیا؟ اور اگر رپورٹ درست تھی تو پھر شیراز احمد کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا؟ یہ ڈبل گیم ایف بی آر کی نیت پر کڑا سوال ہے جس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں۔
یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں پاکستان کسٹمز اپریزمنٹ ساؤتھ کے ذریعے فیس لیس اسسمنٹ سسٹم متعارف کرایا گیا۔ تاجر اور کلئیرنگ ایجنٹس ابتدا سے ہی چیخ اٹھے کہ یہ سسٹم خامیوں سے بھرا ہے اور اسمگلنگ مافیا کے لئے سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل کی عمارت میں بڑے فخر سے اس نظام کا افتتاح کیا مگر چند ماہ بعد ہی پوسٹ کلئیرنس آڈٹ رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا کہ قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اس سے پہلے بھی ایف بی آر کی دنیا میں ہولناک کھیل تماشے سامنے آئے۔ سپرنٹنڈنٹ عمران گل کو نامعلوم افراد بوٹ بیس کے قریب سے اٹھا لے گئے، ایک ماہ بعد چھوڑ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق عمران گل پر رپورٹ دی گئی تھی کہ وہ ناصر جمیل کا دست راست ہیں۔ رپورٹ سامنے آتے ہی ناصر جمیل کو پشاور بھیج دیا گیا اور کارروائی کی افواہیں اڑنے لگیں۔
مگر کھیل یہیں ختم نہیں ہوا۔ جیسے ہی PCA کی رپورٹ منظر عام پر آئی، ناصر جمیل کو ہٹایا گیا لیکن ساتھ ہی ایف بی آر نے آڈٹ رپورٹ بنانے والے شیراز احمد کو معطل کردیا۔ اتفاق؟ ہرگز نہیں!
اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ایف بی آر کے طاقتور ترین افسر یعقوب ماکو ممبر ہیڈکوارٹر کے پاس کسٹمز انٹیلی جنس کی پاور، امپورٹ ایکسپورٹ کی نگرانی اور اب پوسٹ کلئیرنس آڈٹ کا اضافی چارج بھی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا وہ اپنے خلاف ہی منفی رپورٹ حکام کو بھیجیں گے؟ یا پھر ہر چیز ان کے کنٹرول میں ہے اور ایف بی آر صرف چہرے بدل کر اصل کھیل چھپا رہا ہے؟