Screenshot_2025_0804_133319

سندھ ہائی کورٹ نے قومی خزانے کو دو ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے اور درجنوں کمپنیوں کے کاروبار کو متاثر کرنے والے اسکینڈل میں ملوث کمپنی حورا فارما پرائیویٹ لمیٹڈ کی آئینی درخواست نمبر 4353/2025 مسترد کر دی۔ عدالت نے واضح قرار دیا کہ درآمد شدہ سوچرز (ٹانکے لگانے کا دھاگہ) میڈیکل ڈیوائس ہیں، ڈرگ یا ڈسپوزیبل نہیں، اس لیے سیلز ٹیکس میں رعایت نہیں ملے گی۔

یہ فیصلہ دراصل ایک کمپنی کی ہار نہیں، بلکہ پورے نظام کی بے نقابی ہے۔ عدالت نے اگرچہ قانونی وضاحت دے دی، مگر اس فیصلے نے ایف بی آر، ڈریپ اور کسٹمز کی غیر شفاف، متضاد اور من پسند پالیسیوں پر سنگین سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔

ایف بی آر کے اعدادوشمار اور کسٹمز ریکارڈ کے مطابق، جناح ایئرپورٹ اور ساوتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل پر تعینات کسٹم افسران نے حورا فارما کو ڈسپوزیبل کی درجہ بندی دے کر زیرو ڈیوٹی پر کلئیرنس دی جبکہ اسی پروڈکٹ پر پاکستان کسٹم ٹیرف (پی سی ٹی)30061090 میں 42 کمپنیوں کو 10 سے 20 فیصد ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب درجہ بندی سب کے لیے ایک جیسی ہونی چاہیے تو پاکستان کسٹم ٹیرف (پی سی ٹی) 9938 میں ڈسپوزل قرار دے کر صفر ڈیوٹی کی سہولت صرف حورا فارما کو کیوں دی گئی؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ڈریپ نے خود سوچرز کو میڈیکل ڈیوائس قرار دیا، لیکن کسٹمز نے ایک مخصوص کمپنی کو ڈسپوزیبل کے طور پر رعایت دی؟ کیا یہ مفادات کا کھیل نہیں؟

ذرائع کے مطابق ہیلتھ ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر ظفر ہاشمی حورا فارما میں بھی بڑے عہدے پر موجود ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو کیا یہ کھلا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟ کیا یہ لابی ازم اور کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا ہتھکنڈہ نہیں؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس نے تحریری شکایت پر انکوائری شروع کر کے 32 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری پکڑی، مگر دباؤ کے تحت تحقیقات روک دی گئیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے، وزارت خزانہ اور وزارت تجارت سب خاموش کیوں ہیں؟

حورا فارما کے مالکان پہلے ادویات مارکیٹ میں کٹس فروخت کرتے تھے، لیکن کوویڈ 19 کے دوران سندھ حکومت کے خصوصی ٹینڈرز اور ایڈوانس ادائیگیوں کے بعد یہ کمپنی یکدم بڑی کھلاڑی بن گئی۔ کیا یہ سرکاری آشیر باد کے بغیر ممکن تھا؟

اصل سوالات جن کے جواب کوئی نہیں دیتااگر سوچرز میڈیکل ڈیوائس ہیں تو ایک کمپنی کو ڈسپوزیبل کے طور پر چھوٹ کیوں دی گئی؟

اگر یہ ڈرگ بھی نہیں، تو پھر ایف بی آر اور ڈریپ نے حورا فارما کے لیے الگ اصول کیوں اپنائے؟جب ادارے خود تضاد پیدا کریں تو بوجھ صرف درآمد کنندگان پر کیوں ڈالا جاتا ہے؟کیا یہ پالیسی ساز ادارے قومی خزانے کو لوٹنے اور کاروباری طبقے کو تباہ کرنے میں براہِ راست شریک نہیں؟

حورا فارما کیس پاکستان کے ریگولیٹری اور ٹیکس نظام کے اس بوسیدہ ڈھانچے کو عیاں کرتا ہے، جہاں ادارے اپنی مرضی سے فیصلے بدلتے ہیں، بیوروکریسی مخصوص کمپنیوں کو نوازتی ہے اور کاروباری طبقہ عدلیہ کے چکر لگانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر اس گٹھ جوڑ کو توڑا نہ گیا تو قومی خزانہ لٹتا رہے گا اور مارکیٹ میں شفاف مقابلے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔