ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے میڈیکل ڈیوائسز ڈویژن میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، خارجہ پالیسی کی خلاف ورزی اور مریضوں کی جانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
وفاقی وزارت صحت ریگولیشن اینڈ کوارڈینیشن کی سفارش پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے ایڈیشنل ڈائریکٹر آصف جلیل کو ان کے عہدے سے ہٹا کر میڈیکل ڈیوائسز مینجمنٹ سیل (ایم ڈی ایم سی) میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تنزلی کر دی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر وزیرِاعظم کے نمایاں منصوبے آن لائن پورٹل رجسٹریشن سسٹم کو مقررہ 20 دن میں نافذ کرنے میں ناکامی اور عدم تعمیل کا مظاہرہ کیا۔


ذرائع کے مطابق آصف جلیل نے امپورٹرز کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے اصل دستاویزات طلب کر کے غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کیں، جس کے باعث کراچی کے درآمد کنندگان کو ایجنٹوں کی خدمات لینا پڑیں اور وہی پرانی بدعنوانی جس کے خاتمے کے لیے آن لائن سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔جبکہ چین کی مصنوعات کے لیے یورپی ممالک کے فری سیل سرٹیفکیٹس پیش کرنے کی فرمائش کرتے رہے، حالانکہ چین کا درست سرٹیفکیٹ موجود تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ رویہ نہ صرف امتیازی عمل ہے بلکہ پاک چین برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ڈریپ نے آصف جلیل کو ہٹانے کے بعد سی سی او کے منظور نظر ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز احمد کو وفاقی وزارت صحت ریگولیشن اینڈ کوارڈینیشن کے مشورے کے بغیر ہی تعینات کردیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب حافظ آصف اقبال کو ٹیبولیٹر کے طور پر دو بارہ بحال کر کے کام کی اجازت دے دی ہے یاد رہے کہ انہیں اس وقت ہٹایا گیا تھا جب انہوں نے تائیوان کی مصنوعات کی منظوری دے کر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارتی مؤقف کی سنگین خلاف ورزی کی۔اگرچہ ان کی دی گئی منظوریوں کو 31 ویں ایجنڈا میٹنگ میں منسوخ کر دیا گیا تھا، لیکن سابق ڈائریکٹر فخرالدین عامر کے دور میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، جس پر وزیرِاعظم نے خود انہیں عہدے سے ہٹا دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آصف اقبال اب بھی ایم ڈی ایم سی میں ایویلیوایٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور تائیوان رجسٹریشن معاملے پر کوئی سنجیدہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
ڈریپ کے میڈیکل ڈیوائسز ڈویژن پر الزام ہے کہ وہ میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017 کے رول 67 کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس کے تحت ایک ہی میڈیکل ڈیوائس کے لیے متعدد مقامی برانڈ نام رجسٹرڈ کیے جا رہے ہیں۔ یہ عمل سرولینس، ٹریس ایبلٹی اور مریضوں کی حفاظت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔رولز کے مطابق ایک مینوفیکچرر صرف ایک ڈسٹری بیوٹر کو اپنے پروڈکٹس رجسٹریشن کے لیے نامزد کر سکتا ہے، لیکن موجودہ نظام میں متعدد ڈسٹری بیوٹرز کو اجازت دی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک ہی ڈیوائس کے لیے کئی برانڈز کی رجسٹریشن ٹریس ایبلٹی چین کو توڑ دیتی ہے، پوسٹ مارکیٹ سرولینس کو غیر مؤثر بنا دیتی ہے اور ریگولیٹری نظام پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔
دوسری جانب میڈیکل ڈیوائسز منیجمنٹ سیل میں نئے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر ایاز احمد کی تقرری پر بھی تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی ماضی کی کارکردگی نااہلی اور عدم صلاحیت سے عبارت رہی ہے۔
واضح رہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹرز محنتی اور ضابطوں کے پابند ہیں اور انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات کیا جا سکتا ہے تاکہ سسٹم کو شفاف اور فعال بنایا جا سکے۔اسی طرح تائیوان رجسٹریشن کے معاملے پر فوری اور سنجیدہ کارروائی کی جائے، کیونکہ یہ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے منافی ہے بلکہ کئی سال سے التوا میں پڑا ہوا تنازعہ ملکی سفارتی مؤقف کو مزید پیچیدگیوں میں ڈال سکتا ہے۔
ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری ایکشن لے کر ڈریپ میڈیکل ڈیوائسز ڈویژن میں بے ضابطگیوں کا خاتمہ کرے، میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017 پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے اور سب سے بڑھ کر مریضوں کی جانوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے۔