فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے تحت کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ رسک مینجمنٹ کے نام سے نیا نظام اور ڈائریکٹوریٹ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ڈھانچے کی تبدیلی ہے یا واقعی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی جڑیں کاٹنے کا ارادہ موجود ہے؟
نوٹیفکیشن کے مطابق ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہوگا جبکہ ریجنل دفاتر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں قائم کیے جائیں گے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ پرانے کسٹمز انٹیلی جنس دفاتر کے تمام وسائل، ملازمین اور بجٹ اسی نئے ڈائریکٹوریٹ کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ یعنی نئی عمارت پرانے ستونوں پر کھڑی کی جا رہی ہے۔
رسک مینجمنٹ یونٹ اور کراس بارڈر کرنسی موومنٹ ونگ کو درآمدات و برآمدات میں خطرات کی نشاندہی اور غیر قانونی کرنسی کی نقل و حرکت روکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے موجود ادارے یہ کام کرنے میں ناکام رہے تو نیا نام اور نئی اصطلاحات کس حد تک کامیابی کی ضمانت ہوں گی؟
ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کو پورے ملک میں کارروائی کے اختیارات دیے گئے ہیں اور وہ براہِ راست ایف بی آر کو رپورٹ کرے گا۔ ذمہ داریوں میں اسمگلنگ کی روک تھام، منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی، درآمدات و برآمدات میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور جدید رسک مینجمنٹ شامل ہیں۔ لیکن کیا ان تمام دعووں کے باوجود پاکستان میں اسمگلنگ مافیا اور منی لانڈرنگ کے بڑے نیٹ ورک قابو میں آ سکیں گے؟
ریجنل ڈائریکٹرز کو اپنے اپنے صوبوں میں کارروائیوں کا اختیار دیا گیا ہے مگر یہ سوال بدستور موجود ہے کہ سیاسی دباؤ، بااثر اسمگلروں کے روابط اور ایف بی آر کے اندرونی مسائل کے ہوتے ہوئے کیا یہ ریجنل ڈائریکٹرز آزادانہ فیصلے کر سکیں گے؟
نوٹیفکیشن میں خصوصی کمیٹی بنانے کا بھی ذکر ہے جو 30 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ لیکن یہاں بھی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کمیٹیوں کی رپورٹس کا حشر ماضی میں کیا ہوا؟ کیا یہ رپورٹ بھی فائلوں کی نذر ہو جائے گی یا واقعی اصلاحات پر عملدرآمد ہوگا؟
ڈائریکٹر جنرل کو اسٹریٹجک قیادت، نیشنل ٹارگٹنگ سینٹر کے آپریشنز، کسٹمز رسک مینجمنٹ سسٹم کی نگرانی، ٹریننگ اور کارکردگی مانیٹرنگ کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں۔ تاہم ایف بی آر نے ماضی میں بارہا بڑے دعوے کیے لیکن کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی۔
کیا ایف بی آر نے اس نئے ڈائریکٹوریٹ کے لیے کوئی واضح احتسابی میکنزم طے کیا ہے یا صرف عہدے اور دفاتر بانٹے جا رہے ہیں؟اگر ڈائریکٹر جنرل کو ملک گیر اختیارات مل گئے ہیں تو کیا پارلیمنٹ یا عدلیہ میں سے کس کی نگرانی ہوگی تاکہ اس اختیار کا غلط استعمال نہ ہو؟پرانے دفاتر کے وسائل اور عملہ نئے نظام کو منتقل کر کے ایف بی آر کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ نتائج پہلے سے مختلف ہوں گے؟اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم میں ملوث سیاسی و بیوروکریٹک سرپرستی کا توڑ کرنے کے لیے ایف بی آر نے کیا حکمت عملی تیار کی ہے؟30 دن میں رپورٹ دینے والی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کی ضمانت کیا ہے، یا یہ رپورٹ بھی محض ایک اور فائل کی گرد میں دفن ہو جائے گی؟
ریجنل ڈائریکٹرز کو سندھ، پنجاب، اسلام آباد، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں کارروائیاں کرنے کی ہدایات ہیں مگر سوال یہی ہے کہ کیا یہ نئے عہدے اور دفاتر اسمگلنگ، ڈیوٹی و ٹیکسز کی چوری اور غیر قانونی کرنسی کی منتقلی روک پائیں گے، یا یہ نوٹیفکیشن بھی صرف کاغذی اصلاحات تک محدود رہے گا؟