جامعہ کراچی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود کی ڈگری 35 برس بعد منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ہے اور یہ فیصلہ پاکستان میں طاقت کے قانون کی ایک اور روشن مثال بن کر سامنے آیا ہے۔
جامعہ کراچی نے 31 اگست 2024 کے اجلاس میں جس فیصلے کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری منسوخ کی، اس کا ڈیکلریشن 25 ستمبر 2025 کو جاری کیا گیا۔ فیصلے کے مطابق جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کا ایل ایل بی کا نتیجہ اور ڈگری منسوخ کر دی ہے۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار عمران احمد صدیقی نے ڈگری منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سینڈیکیٹ کے اجلاس میں قرارداد نمبر 6 کے تحت اور ان فئیر مینز (یو ایف ایم) کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں طارق محمود ناجائز ذرائع کے استعمال میں پائے گئے تھے اور انہیں تین سال کے لیے کسی بھی امتحان سے روک دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سرکلر 88/1989 جاری کیا گیا جس کے تحت وہ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے اور نہ ہی کسی امتحان میں شریک ہو سکتے تھے۔ مزید یہ کہ وہ کبھی بھی اسلامیہ لاء کالج کراچی کے طالب علم نہیں رہے، لہٰذا ان کا ایل ایل بی انرولمنٹ نمبر AIL-7124/87 بھی منسوخ کیا گیا۔
فیصلے کے تحت طارق محمود کا سیٹ نمبر 22857 اور انرولمنٹ نمبر AIL-7124/87 کا ایل ایل بی کا نتیجہ اور ڈگری منسوخ کر دی گئی۔ یہ نوٹیفکیشن وائس چانسلر کی منظوری سے جاری ہوا اور اس کی اطلاع اسلام آباد ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، چیف سیکرٹری سندھ، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز، ایچ ای سی پاکستان، سندھ ایچ ای سی، سندھ بار کونسل، پرنسپل اسلامیہ لاء کالج اور متعلقہ اداروں کو بھی دے دی گئی۔
لیکن اصل تضاد یہ ہے کہ جامعہ کراچی کی اسی سینڈیکیٹ نے جسٹس طارق محمود کی ڈگری منسوخ کی، اس میں عالم کی نشست پر منتخب ہونے والے صاحبزادہ معظم قریشی 2018 میں بی اے پرائیوٹ کے امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ان پر یو ایف ایم کمیٹی نے الزام ثابت ہونے پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا لیکن حیران کن طور پر انہیں امتحان دینے سے نہیں روکا گیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ نہ صرف تعلیم جاری رکھتے رہے بلکہ آج اسی سینڈیکیٹ کے رکن ہیں اور رواں برس جامعہ کراچی کے پی ایچ ڈی پروگرام میں بھی داخلہ لے چکے ہیں۔


سوال یہ ہے کہ جسٹس طارق محمود پر تو 35 برس پرانا فیصلہ نافذ ہوگیا، کیا یہی اصول موجودہ سینڈیکیٹ رکن معظم قریشی پر بھی لاگو ہوگا؟۔یا ان کے لیے بھی قانون کو 35 برس کا مزید انتظار کرنا ہوگا؟

آخر طاقت، سیاست اور اثرورسوخ کی بنیاد پر تعلیم اور انصاف کے پیمانے کب تک بدلتے رہیں گے؟۔یہ صورتحال صاف ظاہر کرتی ہے کہ جامعہ کراچی کا فیصلہ صرف قانون نہیں بلکہ طاقت کے استعمال اور دوہرے معیار کی بدترین مثال ہے۔