Screenshot_2025_0807_220552

وفاقی حکومت نے درآمدی پالیسی آرڈر 2022 میں ایک اہم اور تکنیکی ترمیم متعارف کراتے ہوئے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دے دی ہے۔ جاری کردہ ایس آر او 1895 کے تحت اب پاکستان میں کاریں، بسیں، ٹرک اور موٹر سائیکلیں تجارتی بنیادوں پر درآمد کی جاسکیں گی بشرطیکہ وہ پانچ سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں۔ یہ سہولت باضابطہ طور پر 30 جون 2026 تک نافذ العمل رہے گی جس کے بعد پالیسی پر دوبارہ نظرثانی متوقع ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق بسیں (PCT 8702)،کاریں (PCT 8703)،ٹرک (PCT 8704)،موٹرسائیکلیں (PCT 8711)درآمد کی اجازت کے دائرے میں شامل ہوں گی۔ یہ کلاسیفکیشن عالمی ہارمونائزڈ سسٹم (HS Codes) کے مطابق متعین کی گئی ہے تاکہ بین الاقوامی تجارتی معیار سے ہم آہنگی برقرار رکھی جا سکے۔

حکومت نے واضح کیا ہے کہ درآمدی گاڑیوں پر ماحولیاتی تحفظ، حفاظتی معیارات اور کوالٹی کنٹرول کی شرائط لاگو ہوں گی۔ ان تقاضوں کی تصدیق انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) وزارت صنعت و پیداوار کے ذریعے کی جائے گی۔ ای ڈی بی اس امر کو یقینی بنائے گا کہ گاڑیاں یورو-5 یا اس سے بلند معیار کی ماحول دوست ٹیکنالوجی اور حفاظتی فیچرز سے لیس ہوں۔

یہ ترمیم آٹو سیکٹر میں کئی سطحوں پر اثرات ڈال سکتی ہے:صارفین کے لیے فائدہ: کم قیمت اور زیادہ انتخاب کی سہولت، بین الاقوامی معیار کی گاڑیوں تک رسائی۔

درآمدی گاڑیوں کی دستیابی سے مقامی آٹو مینوفیکچررز کی اجارہ داری کمزور ہو سکتی ہے، جس سے مسابقت بڑھے گی۔ریونیو امکانات: کسٹمز ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور دیگر محصولات کے ذریعے حکومتی آمدن میں اضافہ ممکن ہے۔انڈسٹریل دباؤ: مقامی آٹو انڈسٹری کو پیداواری لاگت کم کرنے اور معیار بہتر بنانے کے لیے نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ جون 2026 کے بعد درآمدی گاڑیوں کی عمر کی حد مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے یہ ایک ڈھانچہ جاتی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف صارفین بلکہ ملکی سرمایہ کاری، مقامی پیداوار اور صنعتی روزگار پر بھی نمایاں ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ پالیسی مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے تحفظاتی اقدامات کے بغیر خطرناک ثابت نہیں ہوگی؟کیا حکومت کے پاس اتنے ریگولیٹری وسائل اور تکنیکی صلاحیت موجود ہیں کہ درآمدی گاڑیوں کے معیار اور ماحولیاتی تقاضوں کی مکمل جانچ کر سکے؟اگر عمر کی حد 2026 کے بعد ختم کردی گئی تو کیا پاکستان مکمل طور پر استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں تبدیل ہو جائے گا، جس سے مقامی مینوفیکچرنگ صنعت کمزور ہو سکتی ہے؟کیا یہ فیصلہ محض قلیل مدتی سیاسی دباؤ کے تحت کیا گیا ہے یا یہ واقعی ایک طویل المدتی پالیسی ریفارم ہے؟کیا اس اقدام سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا یا محصولات سے ہونے والی آمدن اس کمی کو پورا کر سکے گی؟