Screenshot_2025_0916_134725

کراچی کے عوام کے علاج کے نام پر اربوں کی لوٹ مار ، کے ایم سی کے اسپتالوں میں ایک روپیہ کا سامان نہیں پہنچا مگر افسران اور سیاسی پشت پناہی سے بوگس بلز پر کروڑوں ہڑپ کر لینے کا انکشاف ہوا ہے۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے محکمہ صحت میں بدعنوانی کا نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس نے ادارے کی شفافیت اور قانون پسندی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اسپتالوں کے لیے مختص ساڑھے 4 کروڑ روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) فنڈز دو مخصوص کمپنیوں کے نام پر تقسیم کیے گئے جن میں سے ایک نے بوگس بلنگ کے ذریعے فنڈز ہڑپ کر لیے ہیں ۔واضح رہے کہ یہ واردات گزشتہ مالی سال کے اختتام سے قبل کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت اسپتالوں میں طبی آلات کی سپلائی پر کی گئی اور جون 2025 سے قبل سینئر ڈائریکٹر میڈیکل سروسز کی طرف سے جاری بل کو کے ایم سی اسپتالوں کے اسٹور انچارج نے منظوری دی کہ ٹینڈر کے مطابق سامان کی سپلائی ہوگئی ہے جس پر میونسپل کمشنر نے دستخط کئے ،پھر فنانشل ایڈوائزر کے ایم سی نے بھی دستخط کئے پھر مئیر کراچی کی منظوری کے بعد اکاوئنٹ جنرل سندھ نے چیک جاری کردیا جبکہ یکم اکتوبر 2025 تک مزکورہ ٹینڈر پر خریدی جانے والے طبی آلات کے ایم سی کے اسپتالوں کو موصول نہیں ہوئے تھے ۔

تفصیلات کے مطابق ٹینڈر سینئر ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ڈاکٹر مہرش متھانی کی نگرانی میں جاری کیا گیا، جس میں دو کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا گیا ان میں میسرز میڈیکل اسٹار کمپنی اور الائیڈ انٹرپرائزز شامل ہیں جس کے مالکان میں باسط اور اسلم میمن شامل ہیں۔

تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ الائیڈ انٹرپرائزز نے جعلی اور بوگس بلز جمع کرائے، جنہیں بغیر کسی سپلائی کے ہی کلیئر کر دیا گیا۔اسی طرح الائیڈ انٹرپرائزز نے عباسی شہید اسپتال کے آپریشن تھیٹر کے لئے آرتھوپیڈک چئیر منگوائی جس کے بل میں تعداد ایک ظاہر کی گئی اور ایک سیٹ کی قیمت ساڑھے 9 لاکھ روپے ظاہر کی گئی اور ٹوٹل میں اس کی قیمت دو سیٹس یعنی 18 لاکھ روپے دکھائی گئی اور یہ بل بھی منظور کر کے کلئیر کیا گیا۔ یہ عمل نہ صرف سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے بلکہ اسے براہِ راست اختیارات کے ناجائز استعمال اور عوامی فنڈز کی لوٹ مار قرار دیا جا رہا ہے۔

اس گھپلے میں مبینہ طور پر براہِ راست ملوث افسران میں شامل ہیں اور تمام بلوں اور دستاویزات پر ان کے نام کی مہریں اور دستخط موجود ہیں ان افسران میں ڈاکٹر مہرش متھانی، سینئر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز،ڈاکٹر بابر خان ، اسٹور انچارج،ڈائریکٹر میڈیکل سروسز کے ایم سی کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر میئر کراچی آفس کی سرپرستی بھی شامل ہےجبکہ مبینہ طور ہر اس میں براہِ راست سہولت کاری اور تعاون میونسپل کمشنر افضل زیدی،فنانشل ایڈوائزر کراچی میونسپل کارپوریشن گلزار ابڑو کا بھی رہا ہے اور ان دونوں افسران کےبھی دستاویزات پر دستخط موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعات 409 (امانت میں خیانت)، 420 (فراڈ) اور 468 (جعلی دستاویزات کی تیاری) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انسداد بدعنوانی قوانین کے تحت بھی یہ سنگین جرم ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس کیس کی شفاف تحقیقات کی جائیں تو نہ صرف بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور معطلیاں ممکن ہیں بلکہ متعلقہ کمپنیوں کے نام بلیک لسٹ کر کے ان کمپنیوں سے ریکوری کی کارروائی ہونی چاہیے۔

یہ اسکینڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی صحت کے لیے مختص فنڈز کو غیر قانونی طریقوں سے ذاتی مفاد کی نذر کر دیا گیا، جس سے شہریوں کو علاج و معالجے کی بنیادی سہولتوں سے محروم کیا گیا۔