سندھ پولیس میں چار ڈی ایس پیز سنگین الزامات کے باوجود بچ گئے، ایک ایس ایچ او نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔پولیس میں احتساب کے نام پر ایک اور ڈرامہ بے نقاب ہوا۔ چار ڈی ایس پیز کے خلاف زمینوں پر قبضہ، اسمگلنگ، ایرانی آئل کی غیر قانونی فروخت، پارکنگ مافیا اور منشیات فروشوں سے باقاعدہ نذرانے وصول کرنے جیسے سنگین الزامات لگے، ان کے چالان اور چارج شیٹس بھی جاری ہوئیں، مگر حیرت انگیز طور پر تمام کیس فائل کر دیے گئے۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے دستخط سے جاری آرڈر کے مطابق ڈی ایس پی اورنگزیب خٹک (سابق ایس ایچ او سچل، موجودہ ایس ڈی پی او سہراب گوٹھ) پر زمینوں پر قبضہ، ایرانی آئل اور اسمگلنگ کے الزامات ثابت ہوئے۔ڈی ایس پی آصف منور (ایس ڈی پی او کلاکوٹ) پر پارکنگ مافیا، منشیات فروشوں اور قمار بازی کے اڈوں سے ہفتہ وار بھتہ لینے کے شواہد سامنے آئے۔ڈی ایس پی شبیر احمد خان (ایس ڈی پی او کھارادر) اور ڈی ایس پی ظفر اقبال (ایس ڈی پی او عیدگاہ) پر ٹھیلے والوں، غیر قانونی پارکنگ اور ہوٹلوں سے رشوت لینے کے ثبوت ملے۔انکوائری رپورٹ آنے کے باوجود تمام چارج شیٹس فائل کر دی گئیں اور کوئی کارروائی نہ ہوئی۔

اسی دوران ایس ایچ او محمد شریف کھوسو (ٹنڈو آدم سٹی، سانگھڑ) پر منشیات فروشوں، گٹکا ڈیلرز اور آئل چوری مافیا سے براہِ راست تعلقات رکھنے کے الزامات سامنے آئے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ہر ماہ لاکھوں روپے بھتہ لیتے اور تیل کے ٹینکروں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔تفصیلی انکوائری، سی ڈی آر ریکارڈ اور خفیہ رپورٹس کے بعد انہیں مجرم قرار دے کر فوری طور پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔
یہ فیصلہ پولیس کے اندر واضح دوہرے معیار کو اجاگر کرتا ہےیہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ سندھ پولیس میں اہم عہدوں پر موجود افسران کو تحفظ ملتا ہے جبکہ ماتحت افسران کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کرپشن جرم ہے تو پھر یہ جرم صرف ایس ایچ او کے لیے جرم کیوں ہے؟
زمینوں پر قبضہ اور آئل اسمگلنگ کرنے والے ڈی ایس پیز کو کیوں معافی مل گئی؟
کیا سندھ پولیس میں انصاف کا معیار وردی کے رینک کے مطابق طے ہوتا ہے؟
یہی وہ دوہرا معیار ہے جس نے ادارے کی ساکھ کو تباہ کر دیا ہے۔ طاقتور افسران کے لیے احتساب صرف ایک رسمی کارروائی ہے، جبکہ ماتحت افسروں کے لیے یہ سزا اور ذلت کا دوسرا نام ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ایک ایس ایچ او برطرف ہوا — اصل سوال یہ ہے کہ چار ڈی ایس پیز بچ کیوں گئے؟
جب تک سندھ پولیس میں احتساب سب کے لیے یکساں نہیں ہوگا، تب تک عوام کے ذہنوں میں سوال آتا رہے گا۔