قومی احتساب بیورو (نیب)میں انتظامی سطح پر دہرے معیار کے نتیجے میں تفتیشی افسران کو مستقل خلاف ضابطہ ترقیوں سے نوازا جانے لگا، دوسری طرف پرسنل اسسٹنٹ سیکرٹری ،اسٹینو ٹائپسٹ، اکاوئٹنٹس سمیت 2000 سے زائد ملازمین 22 برس سے ترقیوں کے منتظر ہیں۔

تفتیشی افسران کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کی شکایات بھی نظر انداز جبکہ دیگر ملازمین معمولی شکایات پر بطور سزا نوکریوں سے برطرف کردئیے گئے ،2018 کے بعد ملک بھر میں تعینات ایک درجن سے زائد تفتیشی افسران مالی بے ضابطگیوں کے الزام پر تحقیقات کی زد میں آئے بعض افسران بیرون ملک بھی چلے گئے کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔

نیب میں تفتیشی افسران پر نوازشیں برقرار سالانہ ترقیوں کے ساتھ مالی مراعات سے بھی نوازا جارہا ہے ،وفاقی حکومت نے حکومت سازی سے قبل ادارے کو بند کرنے کا دعویٰ کیا تھا اس کے باوجود تفتیشی افسران کو ترقیوں سے نوازا گیا۔

نیب ہیڈکوارٹر کے گزشتہ ماہ علیحدہ علیحدہ جاری نوٹیفکیشن کے مطابق 14 ایڈیشنل ڈائریکٹرز کو ڈائریکٹر ،44 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو ڈپٹی ڈائریکٹرز کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے اس سے قبل رواں برس فروری میں تین افسران جو گریڈ 20 سے گریڈ 21 میں ڈائریکٹر سے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی ترقی دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ ان افسران کو میتھڈ اپائنٹمنٹ کوالیفائی (ایم اے کیو)2015 کے مطابق ترقی دی گئی ہے اور نیب میں اس نظام کے تحت ترقی دینے پر معاملہ اس وقت عدالت میں زیر التوء ہے لیکن نیب حکام خلاف ضابطہ تفتیشی افسران کو نوازنے کے لئے انہیں مستقل ترقیاں دے رہے ہیں جب کہ 2015 میں جاری ہونے والے ایم اے کیو کی نیب حکام نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری لے رکھی ہے لیکن قانون کے مطابق اس رولز کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری لازم ہے لیکن 2015 میں صدر مملکت ممنون حسین اس کے بعد 2018 میں عارف علوی اور موجودگی صدر آصف علی زرداری ہیں لیکن نیب نے ان تینوں صدور سے منظوری کی زحمت نہیں کی ہے۔

یاد رہے کہ نیب میں جونئیر افسران کے ساتھ اسسٹنٹ پرسنل سیکرٹریز ،اسٹینوز اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کے ساتھ 2200 مستقل ملازمین ہیں لیکن نیب حکام کی جانب سے مستقل نوازشیں صرف انوسٹی گیشن افسران تک ہی محدود ہیں اور یہ ہی وہ نیب کا حصہ یے جس ہر حکومت یا اپوزیشن میں رہنے والی جماعتیں ماضی اور حال میں اعتراض اٹھاتی رہی ہیں جب کہ اسی دوران نیب کے یہ تفتیشی افسران انکوائریوں اور مقدمات کی پیروی کے دوران ملزمان سے اربوں روپے کی مراعات رشوت وصولی کے زریعے حاصل کر کے ایک بڑی تعداد گزشتہ چند برسوں میں ملک سے باہر منتقل ہوچکی ہے اور بیرون ملک جانے کے بعد ایسے افسران نے پاکستان کی شہریت بھی ترک کردی ہے دوسری جانب نیب میں مستقل طور پر تصور کئے جانے والے ملازمین جہاں ادارے میں دیگر مراعات سے محروم ہیں وہاں یہ ملازمین گزشتہ 22 برس ترقی کے منتظر ہیں اور ہر دور میں نیب ہیڈکوارٹر اور چیئرمین نیب کی جانب سے ایسے ملازمین کو مکمل نظر انداز رکھا جاتا ہے اور ایسے ملازمین کے خلاف معمولی سے معمولی شکایات پر بھی تنزلی یا نوکری سے برخاست کرنے کی سزا دی جاتی ہے ۔