Screenshot_2025_0709_042642

جامعہ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کی اسناد اب علم نہیں، کاروبار بن گئی ہیں۔ ادارے کو مالی نقصان پہنچانے اور طلبہ کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کا پرانا کھیل نئے انداز میں شروع کر دیا گیا ہے۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی وائس چانسلر خالد عراقی اور ان کے قریبی حلقے آواز انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز (AIMS) کو غیر معمولی مراعات دے کر طاقتور بنا رہے ہیں۔

انٹرمیڈیٹ میں صرف 50 فیصد نمبروں کی بنیاد پر ان شعبہ جات میں براہِ راست داخلہ دیا جا رہا ہے جہاں جامعہ کراچی خود امتحان کے ذریعے طلبہ کو منتخب کرتی ہے۔ آواز انسٹیٹیوٹ بغیر امتحان داخلہ دے رہا ہے اور جامعہ کراچی کے مساوی یا کم فیس وصول کر کے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ مقصد واضح ہے کہ آئندہ برسوں میں مزید شعبہ جات انسٹیٹیوٹ کو دے کر اسے پرائیویٹ یونیورسٹی میں بدل دیا جائے، اس عمل نے جامعہ کراچی کی سیلف فنانس پالیسی کو تباہ کر دیا ہے کیونکہ جو رقم جامعہ کے خزانے میں آنی چاہیے تھی وہ براہِ راست انسٹیٹیوٹ کی جیب میں جا رہی ہے۔

 

یاد رہے کہ یہی انسٹیٹیوٹ ہے جس پر چار برس قبل جامعہ کراچی کی اکیڈمک کونسل نے سخت تنقیدی رپورٹ لکھی تھی۔ اس وقت یہ انسٹیٹیوٹ صرف ماس کمیونیکیشن کے شعبے سے منسلک تھا اور اس انسٹیٹیوٹ کے خلاف جامعہ کراچی کی اکیڈمک کونسل کی رپورٹ میں فیکلٹی ممبران کی کمی، مقام، فیسوں کی شفافیت اور میرٹ پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ مگر جامعہ کراچی کے موجودہ وائس چانسلر اور ان کے اطراف موجود ریٹائرڈ اور حاضر استادوں نے مبینہ طور پر آواز انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز کے خلاف کارروائی کے بجائے انسٹیٹیوٹ کو مزید شعبہ جات تھما دیے اور رواں برس نئے تعلیمی سال میں اکیڈمک کونسل نے ہی اس کی باقاعدہ منظوری بھی دے دی ہے۔

مزید حیرت انگیز اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کی ریٹائرڈ پروفیسر نصرت ادریس کو اس انسٹیٹیوٹ کی ریکٹر بنا کر دوبارہ جامعہ کراچی کے سینڈیکیٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر، وہ بھی پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ جڑنے کے بعد، جامعہ کے پالیسی ساز ادارے کا حصہ بنی ہوں۔ یہ وہی نصرت ادریس ہیں جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کی ڈگری جعلی قرار دینے والے سینڈیکیٹ میں ووٹ دیا تھا جبکہ ان کا اپنا داخلہ مشکوک تھا کیونکہ جامعہ کراچی کی 75 سالہ تاریخ میں کبھی بھی تھرڈ ڈویژن والوں کو داخلہ نہیں ملا لیکن نصرت ادریس کو مشکوک بنیادوں پر داخلہ دیا گیا۔ بعد ازاں وہ جامعہ میں استاد بھرتی ہوئیں، ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا، 2024 میں ریٹائرڈ ہوئیں اور اب انسٹیٹیوٹ کی ریکٹر بن کر دوبارہ سینڈیکیٹ کی رکن ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جامعہ کراچی ان کی ڈگری مشکوک قرار دے گی یا نہیں؟

 

ذرائع کے مطابق وائس چانسلر خالد عراقی اپنی مدت پوری ہونے کے بعد اسی انسٹیٹیوٹ کے نگران بننے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے چھ سالہ دورِ وائس چانسلرشپ میں انہوں نے آواز انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز کو نوازنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلے یہ انسٹیٹیوٹ پی ای سی ایچ ایس کے ایک بنگلے میں تھا، مگر اب یونیورسٹی روڈ گلشن اقبال میں واقع پی ٹی سی ایل کی بڑی عمارت حاصل کر کے تزئین و آرائش کر کے استعمال کیا جارہا ہے اور اس انسٹیٹیوٹ کو رواں برس مزید شعبہ جات بھی دے دیے گئے ہیں۔ لیکن کوئی یہ سوال اٹھانے کو تیار نہیں کہ فیکلٹی کہاں سے آئے گی اور طلبہ کی حاضری کیسے یقینی بنائی جائے گی ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جامعہ کراچی کے معیار پر کاری ضرب ہے اور پورے تعلیمی نظام کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ دنیا کی کوئی جامعہ اپنی ڈگری کسی مستند ادارے تو دور کی بات متنازعہ ادارے کو دینے کے بارے میں سوچتی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلوں سے جامعہ کا معیار اور صلاحیت دونوں بری طرح متاثر ہوتی ہیں مگر جامعہ کراچی نے پہلے صرف ماس کمیونیکشن اور اب کمپوٹر سائنس ،ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سمیت مزید چار سالہ ڈگری پروگرام بھی انسٹیٹیوٹ کے حوالے کر دئیے ہیں۔

نتیجہ صاف ہے: جس کے پاس پیسہ ہوگا، وہ آسانی سے ڈگری خرید لے گا۔ جامعہ کراچی باضابطہ ریکارڈ فراہم کرے گی اور محنتی طلبہ کا مستقبل براہِ راست تباہ ہو جائے گا۔