کسٹمز اپیلٹ ٹریبونل میں جعلی اپیلوں پر ضبط سامان کی کلئیرنس کا اسکینڈل،کلکٹر پریوینٹیو کی نشاندہی پر کسٹمز اپیلز نے مراسلہ جاری کردیا ،فرضی "آرڈر اِن اپیلز” کی بنیاد پر اپیلیں، محکمہ کی ہنگامی تصدیقی مہم شروع کردی گئی
۔
محکمہ کسٹمز (اپیلز) کراچی میں ایک نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بعض عناصر مبینہ طور پر جعلی اور خودساختہ آرڈر اِن اپیلز تیار کر کے کسٹمز اپیلٹ ٹریبونل کراچی میں اپیلیں دائر کر رہے ہیں، جس سے پورے اپیل نظام کی شفافیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔
محکمہ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق متعدد فریقین کی جانب سے جعلی فیصلوں کی بنیاد پر اپیلیں جمع کرائی گئی تھیں۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے محکمہ نے سید صدام حسین (پریوینٹو آفیسر) کو کلکٹر (اپیلز) کے دفتر بھیجا تاکہ متعلقہ فیصلوں کی نقول حاصل کی جا سکیں۔
ابتدائی جانچ کے دوران ایک مشکوک آرڈر سامنے آیا، جس کے بعد مزید تین جعلی فیصلے بھی منظر عام پر اگئے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ تمام آرڈرز سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں تھے اور مکمل طور پر جعلی یا جعلسازیسے تیار کئے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان جعلی فیصلوں کی بنیاد پر درج ذیل اپیلیں دائر کی گئیں تھیں ان میں اپیل نمبر K-766/2025 3 جون 2025اپیل نمبر K-977/2025 17 جولائی 2025اپیل نمبر K-1202/2025 23 اگست 2025اپیل نمبر K-1201/2025 22 اگست 2025 شامل ہیں
کلکٹر کسٹم پریوینٹیو معین الدین احمد وانی نے 29 ستمبر 2025 کو اپنے مراسلے میں کسٹمز اپیلٹ ٹریبونل کراچی کو تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ تمام اپیلوں کی تفصیلی جانچ کی جائے تاکہ کسی دیگر جعلی یا غیرمجاز اپیل کی نشاندہی ممکن ہو سکے۔ یہ تصدیقی عمل اپیلی نظام کی دیانت داری برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔

جس پر محکمہ کسٹمز (اپیلز) کراچی کی جانب 2 اکتوبر 2025 کو انتباہی مراسلہ جاری کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض اپیل کنندگان نے پہلی سماعت کے دوران ہی یہ دعویٰ کیا کہ ان کے کیسز سے متعلق فیصلے پہلے ہی صادر ہو چکے ہیں یا سامان کی رہائی کے لیے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
تاہم جب ان فیصلوں کی تصدیق محکمانہ ریکارڈ سے کی گئی تو کئی “آرڈر اِن اوریجنل” اور “آرڈر اِن اپیلز” جعلی اور فرضی نکلے۔
محکمے نے تمام متعلقہ اداروں کو واضح ہدایت جاری کی ہے کہ کوئی بھی آرڈر جو کلکٹریٹ آف کسٹمز (اپیلز) کراچی کی جانب سے جاری ہونے کا دعویٰ کرے، اسے اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب تک اس کی اصلیت سرکاری طور پر تصدیق شدہ نہ ہو۔
ذرائع کے مطابق، یہ انتباہی مراسلہ کسٹمز اپیلٹ ٹریبونل کراچی کے تینوں بینچز کے علاوہ،
کلکٹریٹس آف اینفورسمنٹ (کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ، گڈانی)،
ایئر فریٹ یونٹ جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ،اور ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ایف بی آر) کو بھی ارسال کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسٹمز اپیلوں میں جعلی فیصلوں کی موجودگی نہ صرف قومی خزانے کے مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ عدالتی و انتظامی نظام کی شفافیت پر بھی براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ڈیجیٹل ویری فکیشن سسٹم اور اداروں میں موجود شعبہ جات کے رابطے کو مزید مؤثر بنانا ضروری ہے تا کہ ایک شعبہ جات کے فیصلے پر عمل درآمد کے دوران بروقت تصدیقی عمل ممکن ہوسکے۔
محکمہ کسٹمز (اپیلز) کراچی میں انکشاف ہوا ہے کہ جعلی فیصلوں اور خودساختہ "آرڈر اِن اپیلز” کے ذریعے ضبط شدہ سامان کی رہائی کے احکامات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ اسکینڈل اس وقت بے نقاب ہوا جب کلکٹر پریوینٹیو نے مشکوک دستاویزات کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹریبونل کو آگاہ کیا۔ ابتدائی تحقیقات نے پورے اپیلی نظام کی ساکھ پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں ، یہ محض چند جعل سازوں کا کھیل نہیں بلکہ نظامِ شفافیت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔