Screenshot_2025_0920_135113

کراچی کے چھ اضلاع میں غیر قانونی تعمیرات کی کہانی دراصل کرپشن، سفارش اور اثرورسوخ کے مضبوط گٹھ جوڑ کی ایک بھیانک تصویر بن چکی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی کی جاری تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف تین برسوں کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں 350 سے زائد رہائشی، کمرشل اور صنعتی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی گئیں اور اس پورے کھیل میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد رشوت کا لین دین ہوا۔

تحقیقات کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے دو سابق ڈائریکٹر جنرلز، اسحاق کھوڑو اور عبدالرشید سولنگی کے خلاف نیب کی انکوائری میں ایس بی سی اے کی اندرونی بدعنوانی کے وہ گوشے سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس ادارے کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا۔

نیب نے 16 ستمبر 2025 کو ایس بی سی اے سے 30 ستمبر تک کراچی کے سات میں سے چھ اضلاع شرقی، جنوبی، وسطی، غربی، کورنگی اور ملیر میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا۔
تاہم ایس بی سی اے نے تاحال مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا بلکہ مزید وقت مانگ کر معاملے کو طول دینے کی حکمت عملی اپنائی یے۔

ذرائع کے مطابق نیب کو فراہم کی گئی ابتدائی فہرست میں ضلع شرقی میں 70 سے زائد غیر قانونی تعمیرات، ضلع جنوبی میں 63، کورنگی میں 41، ملیر میں 29، ضلع غربی میں 37 جبکہ سب سے زیادہ یعنی 117 سے زائد غیر قانونی تعمیرات ضلع وسطی میں ریکارڈ کی گئیں  جن میں نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا سرِفہرست ہیں۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر غیر قانونی تعمیرات قیمتی کمرشل و رہائشی پلاٹوں پر ہوئیں جنہیں ایس بی سی اے کے اندرونی عناصر کی منظوری یا چشم پوشی حاصل تھی۔

سب سے چونکا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ ایس بی سی اے نے نیب کو فراہم کی گئی رپورٹ میں خود تسلیم کیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کا نظام ادارے کے افسران کے ساتھ ساتھ صحافیوں، پولیس افسران، سماجی کارکنوں اور علاقائی سیاسی نمائندوں کے دباؤ اور آشیرباد سے مضبوط ہوا۔

ذرائع کے مطابق ایس بی سی اے کے حکام نے اپنے دفاع میں نیا پنڈورا باکس کھولتے ہوئے ایسے پلاٹوں کی تفصیلات جمع کرائیں جن پر بڑے میڈیا گروپ، ڈمی چینلز، یوٹیوبرز، اینٹی کرپشن افسران اور سیاسی شخصیات کے دباؤ پر این او سی جاری کیے گئے۔

یہی نہیں، فہرست میں آباد سے منسلک بااثر بلڈرز کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے انہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کیں اور اربوں روپے کی لوٹ مار کو قانونی رنگ دینے کے لیے اندرونِ ادارہ ملی بھگت کا سہارا لیا۔

تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں ہونے والی ان غیر قانونی تعمیرات میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی رشوت تقسیم کی گئی، جب کہ اس سسٹم کے “اوپر” تک پہنچنے والی رقم کا تخمینہ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا۔

ایس بی سی اے کی خاموشی اور ریکارڈ جمع کرانے میں تاخیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن کے اس گندے تالاب کے پیچھے صرف چند افسران نہیں، بلکہ پورا نظام شامل ہے ایک ایسا نظام جو پلاٹوں کی قیمت پر نہیں، بلکہ ضمیر کی قیمت پر چل رہا ہے۔