پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری پر دس برس بعد تاریخ دہرائے جانے کی کوشش شروع ہوگئی اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ دس برس قبل ان لائن ڈگریوں کے نام پر ایگزیکٹ کے خلاف نیویارک ٹائمز میں ڈیکلن والش نے اسٹوری فائل کی تھی اور دس برس بعد ایگزیکٹ کے ہی ایک سابق ملازم برہان مرزا کے خلاف بین الاقوامی اداروں سے وابستہ صحافی (ڈینی ڈی ہیک) نے اپنے بلاک پر شائع کی ہے صحافی کا دعویٰ ہے کہ وہ ان لائن بین الاقوامی فراڈ پر تحقیقات کے بعد اشاعت کرتا ہے اور نیویارک ٹائمز ،بلوم برگ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہا ہے ۔جبکہ بعض زرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ڈینی ڈی ہیک کے ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ سے قریبی رابطے ہیں۔
پاکستان کی ایک آئی ٹی کمپنی سے متعلق ستمبر 2025 کے آخر میں بین الاقوامی صحافی کی ویب سائٹ پر شائع اسٹوری کو تحقیقات ڈاٹ کام نے عنوان سمیت ترجمہ کیا ہے ۔جو اپنے قارئین کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔
برہان مرزا مافیا ڈان، فراڈز اور منشیات کی اسمگلنگ
یہ ایک طاقتور مافیا ڈان ہے جس کے بارے میں آپ نے شاید کبھی نہیں سنا ہوگا۔ وہ خود کو ایک کامیاب آئی ٹی کاروباری شخص کے طور پر ظاہر کرتا ہے، مگر دراصل وہ امریکا میں قائم منی لانڈرنگ نیٹ ورک اور پاکستان میں موجود کئی جعلی سافٹ ویئر کمپنیوں (جنہیں مقامی طور پر “سافٹ ویئر ہاؤسز” کہا جاتا ہے) کے ذریعے غیر قانونی کاروبار چلا رہا ہے۔
ہم نے اس کے ان ڈھٹائی بھرے فراڈ اسکیمز کی تحقیقات کی ہیں جن کے ذریعے امریکی شہریوں سے کروڑوں ڈالر لوٹے گئے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ رشوت، تشدد، خریدے گئے میڈیا رپورٹس، اور دھمکیوں کے ذریعے قانون سے خود کو محفوظ رکھتا ہے — جبکہ امریکا سے پاکستان تک ڈالرز کی ترسیل کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
تازہ ترین معلومات کے مطابق برہان مرزا اور اس کی اہلیہ سمیرا سہیل نے اپنے خاندان کو برطانیہ منتقل کر دیا ہے۔ بظاہر برہان مرزا کا کہنا ہے کہ یہ منتقلی عارضی ہے تاکہ وہ اپنی بیٹی کو اسکول میں داخل کرا سکے، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔
محمد برہان مرزا خود کو پاکستان کا مارک زکربرگ یا بل گیٹس ظاہر کرتا ہے — ایک نوجوان ٹیکنالوجی انٹرپرینیور جو کراچی سے مستقبل بنا رہا ہے۔ لیکن سرکاری ریکارڈز اور تحقیقی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ درحقیقت وہ ایک بین الاقوامی مجرمانہ نیٹ ورک چلا رہا ہے جس نے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے متاثرین سے کروڑوں ڈالر چرائے ہیں، اور اس کے کاروبار کے گرد منشیات کی اسمگلنگ کے سنگین الزامات بھی منڈلا رہے ہیں۔
پس منظر اور ابتدائی کیریئر
محمد برہان مرزا (جو خود کو برہان مرزا کہلاتا ہے)، تنویر مرزا کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنا کیریئر 2006 میں ایگزیکٹ (Axact) سے شروع کیا وہی بدنام زمانہ پاکستانی کمپنی جسے 2015 میں دی نیویارک ٹائمز نے بے نقاب کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایگزیکٹ جعلی تعلیمی ڈگریاں آن لائن فروخت کرتی تھی اور سرکاری اداروں کے نام پر اپنے ہی کلائنٹس کو بلیک میل کرتی تھی۔
وہ 2009 تک اس کمپنی کے ساتھ منسلک رہا۔ اس دوران ایگزیکٹ جس کے بانی شعیب احمد شیخ اور وقاص عتیق تھے دنیا کی سب سے بڑی جعلی ڈگریاں بیچنے والی اور بلیک میلنگ کرنے والی کمپنی بن چکی تھی۔
اپنے عروج کے زمانے میں، ایگزیکٹ صرف ایک سال میں کم از کم 89 ملین امریکی ڈالر کماتی تھی۔ کمپنی نے 197 ممالک کے دو لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ افراد کو جعلی ڈگریاں فروخت کیں، اور بعد میں انہی افراد کو بلیک میل کیا۔
ایگزیکٹ صرف جعلی ڈگریاں فروخت نہیں کرتی تھی بلکہ اس کے اندر ایسے محکمے بھی کام کرتے تھے جو بلیک میلنگ اور جھوٹے دعووں پر مبنی فراڈ کرتے تھے۔
2009 میں برہان مرزا نے ایگزیکٹ چھوڑ دی اور اپنا علیحدہ فراڈ نیٹ ورک بنانے کا فیصلہ کیا۔
ایگزیکٹ میں کام کے دوران، وہ لوگو ڈیزائن فروخت کے منصوبوں میں مہارت رکھتا تھا جو کہ ایک ایسا منافع بخش دھوکہ تھا جس میں ٹریڈ مارک کے نام پر بلیک میلنگ کی جاتی تھی۔
اسی دور میں اس نے وہ جدید فراڈ کے طریقے سیکھے جن پر بعد میں اس نے اپنی خود کی مجرمانہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
ہزاروں جعلی ویب سائٹس بنانا
جارحانہ فروخت کے طریقے اور “اپ سیلنگ” (اضافی چیزیں زبردستی بیچنا)
سرکاری اہلکاروں کا روپ دھارنا
متاثرین کو منظم طور پر بلیک میل اور بلیک میلنگ کے ذریعے پیسہ بٹورنا (حتیٰ کہ کئی متاثرین خودکشی کے بارے میں سوچنے یا خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے)
B2B ویب سائٹس جیسے TradeKey[.]com اور ExportHub[.]com کے ذریعے منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات
امریکی حکومت اور بڑی امریکی ہیلتھ کیئر کمپنیوں کو نشانہ بنانے والے طبی بلنگ فراڈ (ایسی کمپنیوں کے ذریعے جیسے RCM Matter، جو پہلے Digitonics Care کے نام سے جانی جاتی تھی)
پاکستانی حکام کی جانب سے 2015 میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے بعد Axact کے دفاتر پر چھاپوں سے کئی سال پہلے ہی، برہان مرزا نے خود کو اس کمپنی سے الگ کر لیا تھا اور اپنی سوشل میڈیا پروفائلز سے وہاں کی ملازمت کا ہر ذکر مٹا دیا تھا۔
جب Axact کے درجنوں سینئر عہدیداروں کو فراڈ کے الزام میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی، تو کئی دیگر ملازمین کو بھی اس کے طویل مدتی نتائج بھگتنا پڑے — جن میں برطانیہ اور امریکہ کے ویزوں پر پابندی بھی شامل ہے، کیونکہ ان کے کریمنل ریکارڈ اور کمپنی سے تعلقات کا انکشاف ہوا۔
تاہم برہان مرزا آج بھی بیرونِ ملک آزادانہ سفر کرتا ہے، اٹلی اور برطانیہ جیسے ممالک جاتا ہے، بینک اکاؤنٹس کھولتا ہے، کمپنیاں رجسٹر کرتا ہے، اور اپنے اثاثے پاکستان سے دور محفوظ مقامات پر منتقل کرتا رہتا ہے۔
جنید منصور کے ساتھ شراکت داری
ایکزیکٹ چھوڑنے کے بعد برہان مرزا نے ٹریڈ کی [TradeKey.com] میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ایک علی بابا (Alibaba) جیسی ویب سائٹ تھی جسے جنید منصور نے قائم کیا تھا۔ جنید منصور پاکستان کے مجرمانہ نظام میں گہرے تعلقات رکھتا تھا۔ اس منصوبے میں اس کا شریک کار ولید ابوالخیل بھی تھا، جسے منصور نے لاکھوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
برہان مرزا کو یقین تھا کہ ٹریڈ کی اُس کی دولت اور کامیابی کا ذریعہ بنے گا، لیکن جلد ہی کمپنی کو بڑی کارپوریشنز کی طرف سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پلیٹ فارم پر اُن کے برانڈز کا ناجائز استعمال کیا جا رہا تھا اس کے بعد کئی کٹھن برس شروع ہوئے جن میں ٹریڈ کی کے سرورز ضبط کر لیے گئے اور کمپنی کی مجرمانہ سرگرمیوں کے ثبوت سامنے آنے لگے۔
ٹریڈ کی کے لیے مشکلات میں اضافہ
سال 2018 میں ٹریڈ کی اور برہان مرزا کی مشکلات مزید بڑھ گئیں، جب کمپنی کا نام امریکی منشیات اسمگلنگ کیس میں سامنے آیا، جس میں چین سے فینٹانائل (Fentanyl) کی ترسیلات شامل تھیں۔
اسی دوران کمپنی کے اندر جنید منصور، اُس کے بھائیوں (بشمول قاسم منصور) اور برہان مرزا کی بدانتظامی بڑھتی گئی۔ تنخواہوں میں تاخیر کے باعث ملازمین نے آنا چھوڑ دیا اور کمپنی کا نظام تقریباً ٹھپ ہو گیا۔
جب کاروبار مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچا تو برہان مرزا اور جنید منصور نے مل کر ڈیجیٹونکس لیبز (Digitonics Labs) کے نام سے ایک نئی کمپنی قائم کی۔
یہ کمپنی بظاہر ایک قانونی آئی ٹی سروسز فراہم کنندہ کے طور پر پیش کی گئی، مگر درحقیقت اسے انٹرنیٹ فراڈ، منی لانڈرنگ، بلیک میلنگ اور چوری کے لیے بنایا گیا تھا۔
فراڈ سے کمائی اور ایک ہلاکت خیز حادثہ
برہان مرزا نے وہی کام دوبارہ شروع کیا جس میں وہ ماہر تھا ، لوگو ڈیزائن کے جعلی آن لائن پراجیکٹس اور ٹریڈمارک اپ سیلنگ (Trademark Upselling) کے ذریعے فراڈ۔
اس عمل سے ڈیجیٹونکس لیبز نے لاکھوں ڈالر کمائے، اور کمپنی نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے نئے نئے جعلی پروجیکٹس لانچ کیے، جن کے ذریعے عالمی سطح پر متاثرین کو دھوکہ دیا گیا۔
کمپنی کی ماہانہ آمدنی بڑھ کر 24 لاکھ امریکی ڈالر (USD $2.4 million) تک پہنچ گئی۔
الزامات کے مطابق 2020 کے اوائل میں برہان مرزا کے تین ملازمین ایک کمپنی کی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ گاڑی کا ڈرائیور، جو کمپنی کا ایک اعلیٰ سیلز اپ سیلر تھا، حادثے میں ملوث ہوا جس کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہو گئی۔
چونکہ گاڑی کمپنی کی ملکیت تھی، برہان مرزا نے رشوت دے کر کیس کو دبا دیا۔
برہان مرزا کا جیل جانا، 2021 کی چھاپہ مار کارروائیاں
2020 سے 2021 کے دوران، برہان مرزا کی سرگرمیوں پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی توجہ دی گئی۔ 2021 میں امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آفس (USPTO) نے کراچی کے جعلی سافٹ ویئر ہاؤسز پر باضابطہ الزام لگایا کہ وہ وفاقی ٹریڈ مارک رجسٹریشن حاصل کرنے کے خواہشمند درخواست گزاروں کو دھوکہ دینے اور فراڈ کرنے کے ایک سنگین منصوبے میں ملوث ہیں۔
جنوری 2021 میں، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) نے برہان مرزا اور اس کے تقریباً چار درجن ساتھیوں پر وہ مقدمہ درج کیا جسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ کیس قرار دیا گیا۔
USPTO کی رپورٹ کے بعد کراچی کے فراڈ سافٹ ویئر ہاؤسز پر دوبارہ بین الاقوامی توجہ مرکوز ہوگئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شعیب احمد شیخ، جو ایگزیکٹ (Axact) کا سربراہ ہے، نے برہان مرزا سمیت اپنے اُن سابق ساتھیوں سے دوبارہ رابطے بحال کیے جنہوں نے بعد میں اپنے منافع بخش مجرمانہ کاروبار قائم کر لیے تھے۔ ان میں سلمان یوسف، شرجیل پرویز، نوید صغیر، ونکی بشیر اور سعد اقبال شامل تھے۔
سلمان یوسف جو شدید ریڑھ کی ہڈی کے مسئلے میں مبتلا تھا، نے ٹی کرو (TCurve) نامی ایگزیکٹ کی فرنٹ کمپنی کے ذریعے مشاورتی بنیاد پر دوبارہ ایگزیکٹ میں شامل ہونے پر آمادگی ظاہر کی۔
جب امریکی دباؤ پاکستانی حکومت پر بڑھا تو شعیب احمد شیخ کا ایف آئی اے پر اثر و رسوخ بھی کسی کو نہیں بچا سکا، اور برہان مرزا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ برہان مرزا اور شرجیل پرویز دونوں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ سلمان یوسف بھی اس کریک ڈاؤن کی زد میں آ گیا۔
اس دوران شعیب احمد شیخ نے اپنے ٹی وی چینل بول نیوز کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص ملازمین کے نام نشر کیے اور انہیں دھمکایا کہ وہ دوبارہ ایگزیکٹ میں شامل ہو جائیں۔
اسی وقت سلمان یوسف، جو عظنیم بلوانی کے لیے کام کر رہا تھا، نے اب ٹیک (Abtach) اور انٹرسِس (Intersys) کی سیلز ٹیموں کو مالدیپ اور پھر ترکی منتقل کر دیا تاکہ رقم کا سلسلہ جاری رہے۔
برہان مرزا باضابطہ طور پر سات ماہ تک زیرِ حراست رہا، مگر حقیقت اس سے مختلف تھی۔ اس کے ملازمین نے جیل کی سختیوں کا سامنا کیا، جب کہ مرزا نے دل کے والو کے مسئلے کا بہانہ بنا کر خصوصی سہولتیں حاصل کر لیں۔
عام قیدیوں کے برعکس، اسے ایئر کنڈیشنڈ پرائیویٹ اسپتال کے کمرے میں رکھا گیا، جہاں روزانہ گھر کا کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔
چھاپوں کے آغاز سے قبل جنید منصور جو اس تمام کارروائی کے پیچھے مجرمانہ ذہانت رکھنے والا ماسٹر مائنڈ تھا کو اسلام آباد میں اپنے سیاسی رابطوں کے ذریعے اطلاع مل گئی تھی۔ اطلاع ملتے ہی جنید منصور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں (فاٹا) کی طرف فرار ہوگیا۔
جب امریکہ کا دباؤ پاکستان پر کم ہوا اور جعلی سافٹ ویئر کمپنیوں کے جرائم پیشہ نیٹ ورک میں آپسی حساب چکانے کا سلسلہ تھما، تو ڈیجیٹونکس لیبز (Digitonics Labs) نے دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
جنید منصور اور برہان مرزا نے ایف آئی اے کے افسران کو بھاری رشوتیں دیں۔ اس عمل میں برہان مرزا کے سالے بھی شامل تھے، جنہوں نے برہان مرزا کی مدد کی۔
جلد ہی ڈیجیٹونکس لیبز دوبارہ بھاری منافع کمانے لگی جس کی آمدنی ماہانہ 40 لاکھ امریکی ڈالر (تقریباً 19 کروڑ روپے پاکستانی) تک پہنچ گئی۔ اسی رقم سے برہان مرزا نے مبینہ طور پر ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کو تقریباً 19 کروڑ روپے (6 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد) رشوت دی۔ یہ رقم تقریباً اتنی ہی تھی جتنی اظنیم بلوانی (Abtach–Intersys کے بانی اور پاکستان کے منشیات و سائبر فراڈ نیٹ ورک کی ایک اور بڑی شخصیت) نے اسی دور میں مقدمات سے بچنے کے لیے ایف آئی اے کو دی تھی۔
رشوت کے بدلے برہان مرزا کو ضمانت ملی اور اس نے اپنی مجرمانہ سلطنت کو تیزی سے پھیلانا شروع کردیا۔
چھاپوں کے بعد برہان مرزا اور جنید منصور کے درمیان طاقت کا توازن یکسر بدل گیا۔
چھاپوں سے پہلے برہان مرزا، جنید منصور کے ماتحت تھا اور اس سے احکامات لیتا تھا لیکن چھاپوں کے بعد برہان مرزا ڈیجیٹونکس لیبز کا سربراہ بن گیا اور جنید منصور کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا۔
اس نئے دور میں ڈیجیٹونکس لیبز کی سب سے زیادہ منافع بخش سرگرمیاں درج ذیل تھیں۔
کاپی رائٹ اور ٹریڈمارک دھوکے
لوگو ڈیزائن کے فراڈ (جنہیں عموماً ٹریڈمارک اسکیموں کے ساتھ مہنگے داموں بیچا جاتا تھا)
"RSP” خدمات (یعنی ریسرچپیپرلکھنے کی غیر قانونی سروسز) جن میں گاہکوں سے بھاری رقوم لے کر ان کے لیے تعلیمی مقالے لکھے جاتے اور بعد میں بلیک میلنگ کی جاتی
ویب ڈیزائن، ای کامرس اور دیگر شناخت چھپانے، جعلسازی اور بلیک میلنگ پر مبنی منصوبے شامل تھے۔
برہان مرزا کا نیا منصوبہ ڈیجیٹونکس لیبز کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا
بالآخر برہان مرزا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ڈیجیٹونکس لیبز کے وسیع کاروباری نظام کو مختلف ناموں والی کمپنیوں کے جال میں تقسیم کر دے۔ یہ منصوبہ وہ چھاپوں سے بھی پہلے سے تیار کر رہا تھا۔
ہر نئی کمپنی کے لیے ایک جعلی چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) مقرر کیا گیا، جنہیں اس مقصد کے لیے رکھا گیا تھا کہ اگر کبھی حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی ہو، تو وہ سزا کاٹیں اور مرزا خود محفوظ رہے۔
پردے کے پیچھے ان کمپنیوں کا پورا مالیاتی نظام مرزا کے ان امریکی مرچنٹس پر منحصر تھا جو ٹیکساس، نیو جرسی اور دیگر امریکی ریاستوں میں واقع تھے۔ یہی مرچنٹس امریکی متاثرین سے فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئی رقوم وصول کرتے تھے۔
اس ڈھانچے نے مرزا کو اپنی جعلی کمپنیوں کے پورے نیٹ ورک پر مکمل اختیار اور کنٹرول دے دیا۔
کیونکہ تمام مالی لین دین انہی مرچنٹس کے ذریعے ہوتا تھا، اس لیے مرزا جب چاہتا، رقم کے بہاؤ کو روک سکتا تھا۔
البتہ ایک کمزوری اندرونی سطح پر موجود تھی بعض اوقات ملازمین خود ہی متاثرہ افراد کی ادائیگیاں اپنے ذاتی مرچنٹ اکاؤنٹس میں منتقل کر لیتے تھے۔ مرزا ہمیشہ اس خطرے سے محتاط رہتا، لیکن بعد میں یہ خطرہ حقیقت میں پیش بھی آ گیا۔
جھوٹے بیانات اور حقیقت کا پردہ فاش
جب صحافیوں نے ڈیجیٹونکس لیبز کے بارے میں سوالات کیے تو برہان مرزا اور اُس کے ساتھی جنید منصور نے یہ دعویٰ کیا کہ کمپنی بند کر دی گئی ہے۔
اصل میں یہ دعویٰ بالکل جھوٹا اور آسانی سے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈیجیٹونکس لیبز، جو اپنے عروج پر ماہانہ 40 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ کماتی تھی، بند نہیں ہوئی بلکہ مرزا اور منصور نے اسے نئے ناموں والی درجنوں کمپنیوں میں تبدیل کر دیا۔
ہر کمپنی کے لیے الگ برانڈ اور الگ جعلی سی ای او بنایا گیا، مگر ان سب کی ادائیگیاں ایک ہی مرچنٹ نیٹ ورک کے ذریعے جاتی تھیں جو براہِ راست مرزا اور منصور کے کنٹرول میں تھا۔
دونوں ملزمان کا دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ختم کر دیا گیا ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو وہ عدالت کے کاغذات عوام کے سامنے پیش کرتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مقدمہ صرف رشوت کے ذریعے ملتوی کیا گیا ، پاکستان کے بدعنوان عدالتی اور تحقیقاتی نظام کو بھاری رقوم دے کر۔
نئی کمپنیوں کے نام اور فریب کا جال
ProByte, ProTech, Techrix, Sky Soft Tech، اور Technado جیسی کمپنیاں بظاہر آزاد کاروباری ادارے معلوم ہوتی ہیں،
لیکن درحقیقت یہ سب مرزا کی ہی ملکیت میں ہیں اور ایک ہی متحدہ فراڈ نیٹ ورک کے تحت کام کرتی ہیں،
جہاں ایک ہی پروڈکشن ٹیم اور ایک ہی مالی نظام استعمال کیا جاتا ہے۔
جعلی ’اینجل انویسٹر‘ کا اصل چہرہ
عوامی طور پر برہان مرزا خود کو صرف ایک “angel investor” یعنی سرمایہ کار کے طور پر پیش کرتا ہے،
مگر جو لوگ اُسے قریب سے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
مرزا کی شخصیت دو باتوں سے پہچانی جاتی ہے:
شدید خود پسندی (narcissism) اور دوسروں پر ضرورت سے زیادہ کنٹرول رکھنے کی عادت ہے۔
وہ کبھی بھی ایک عام سرمایہ کار نہیں رہتا بلکہ اپنے جعلی سافٹ ویئر ہاؤسز کے انتظامی اور عملی معاملات میں خود مداخلت کرتا ہے۔
کئی بار وہ کلائنٹس کے ساتھ براہِ راست فون کالز میں شامل ہوا تاکہ نہ صرف اپنی سیلز کی مہارت دکھا سکے بلکہ یہ بھی ثابت کرے کہ
وہ اپنی ٹیم کے کسی بھی فرد سے بہتر فراڈ کر سکتا ہے۔
برہان مرزا کا موجودہ دایاں ہاتھ معیز ستار (Moiz Sattar) ہے جو اُس کا حد سے زیادہ وفادار ہے، مگر مرزا کے رویے کا انداز ایسا ہے کہ ایسی وابستگیاں زیادہ دیر قائم نہیں رہتیں۔ چاہے کوئی اُس کے مجرمانہ نیٹ ورک کو چلانے میں کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، اُس کی خود پسندی اور انا ہمیشہ آڑے آتی ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ اُس نے اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف سازشیں کیں، اُن کی ادائیگیاں روکی، اور آخر کار اُنہیں دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ مرزا کے نزدیک وفاداری قابلِ قربانی چیز ہے حتیٰ کہ اُس کے سب سے قریبی ساتھی بھی آخرکار اُس کے استحصال اور بدسلوکی کا شکار بن جاتے ہیں۔
ایسا ہی حال منیب علی خان کے ساتھ ہوا، جس نے برہان مرزا کے لیے کئی مہینے جیل میں گزارے، مگر بعد میں پیسوں کے جھگڑے پر اُسے بھی ٹھکرا دیا گیا۔
قرآن کے نام پر منی لانڈرنگ، بینک اور مرچنٹس سے فراڈ
برہان مرزا اور جنید منصور نے قرآنِ پاک کے نام کو اپنے منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک اور وسیع پیمانے پر مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا۔ اُنہوں نے recitequranonline[.]com اور quranmasteronline[.]com جیسے ویب سائٹس بنائیں، جو بظاہر جنید منصور کے بھائی قاسم منصور کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔
ظاہری طور پر یہ ویب سائٹس قرآن سکھانے کے جائز پلیٹ فارم معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل ان کا مقصد مختلف ہے یہ مشکوک مالی لین دین کے لیے ایک ” کہانی” (Cover Story) فراہم کرتی ہیں۔
جب بینک یا پیمنٹ پروسیسرز یہ پوچھتے ہیں کہ ایک امریکی کلائنٹ نے مرزا کی کمپنی کو دو لاکھ ڈالر ($200,000) تک کیوں بھیجے، تو جواب دیا جاتا ہے کہ یہ رقم آن لائن قرآن کلاسز کی سبسکرپشن فیس ہے۔
اس حکمتِ عملی سے مرزا اپنے دھوکہ دہی سے حاصل شدہ پیسے کے اصل ماخذ کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور مذہبی تعلیم کے نام پر ناجائز پیسوں کو "جائز” ظاہر کرتا ہے۔
یہ رقم بعد میں انہی قرآن ویب سائٹس کے ذریعے مختلف ممالک جیسے امارات (UAE)، چین، سعودی عرب، کراچی، برطانیہ (UK) اور سویڈن کو منتقل کی جاتی ہے۔
اس اسکیم کے ذریعے مرزا اور منصور نے Stripe، PayPal، اور بڑے بینکوں جیسے USAA اور JPMorgan Chase کو دھوکہ دیا اور یہ سب مذہب کے نام کو ڈھال بنا کر کیا گیا۔
یہ ویب سائٹس بھی دراصل جرائم سے حاصل شدہ رقوم سے چلائی جا رہی ہیں۔
جعلی ایف آئی اے الزامات
جیل میں اپنی کیے گئے جرائم کی سزا کاٹنے کے بعد، برہان مرزا نے یہ سمجھ لیا کہ کسی کو جیل میں ڈال دینا ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے خاص طور پر جب اسے بطور دھمکی استعمال کیا جائے۔ اپنی سزا سے سبق سیکھنے کے بجائے اس نے اسے ایک حکمتِ عملی میں بدل دیا اور پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) کو اپنے اثر و رسوخ کے تحت لے لیا۔
کئی سابق ملازمین نے انکشاف کیا ہے کہ مرزا نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کروائے اور ایف آئی اے کے افسران کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ہراساں کیا۔ متاثرین نے بتایا کہ انہیں اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیا اور یہاں تک کہ ان کی خواتین رشتہ داروں کو ریپ کی دھمکیاں دی گئیں تاکہ وہ برہان مرزا کی مرضی کے مطابق کام کریں۔
ایک خوفناک واقعے میں، مرزا پر الزام ہے کہ اس نے ایک ملازم کو اغوا کروایا تاکہ اس کا فون چھین کر اس کی شناخت سے واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے جائیں اور ایک دوسرے ساتھی کو دھوکہ دے کر حساس معلومات حاصل کی جا سکیں۔
مرزا وہ "پاکستان کا مارک زکربرگ” نہیں ہے جیسا کہ کچھ خریدی گئی میڈیا رپورٹس میں دکھایا جاتا ہے۔ حقیقت میں کسی جائز آئی ٹی ماہر سے زیادہ ڈان سے مشابہت رکھتا ہے۔
آن لائن شہرت کا انتظام (Online Reputation Management)
برہان مرزا نے اپنی مثبت میڈیا امیج خریدنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ کرپٹ پاکستانی میڈیا میں وہ خود کو ایک "ماہرِ معیشت” کے طور پر پیش کرواتا ہے جو قومی بجٹ پر تبصرہ کرتا ہے حالانکہ اسے اس بارے میں کوئی اہلیت یا تجربہ نہیں۔
درحقیقت، وہ ایک فراڈیے اور منشیات اسمگلنگ کے الزامات میں ملوث شخص ہے اور اس کی میڈیا میں موجودگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں جیسے فراڈ، گرفتاری، رشوت اور جیل کی سزا کے حقائق کو چھپا سکے۔
اندرونی ذرائع کے مطابق، مرزا کو اپنی آن لائن شبیہ کے بارے میں جنون کی حد تک فکر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ روزانہ کئی بار ChatGPT سے اپنے بارے میں سوال کرتا ہے، اور لینگویج ماڈلز کو دھوکہ دینے کے لیے مصنوعی خبریں شائع کرواتا ہے تاکہ انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں مثبت مواد پھیل سکے۔
اس طرح اس نے ایک مصنوعی اعتبار کی تصویر بنائی ہے ایک ایسا چہرہ جو حقیقت کو چھپا دیتا ہے
برہان مرزا کوئی قابلِ احترام بزنس مین نہیں بلکہ ایک مافیا ڈان ہے۔
اس مقصد کے لیے، مرزا کی قابلِ اعتماد ملازمہ ایڈن بتول (Aden Batool) اس کی ادائیگی شدہ میڈیا کوریج اور مثبت خبری مضامین کو منظم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
برہان مرزا کے بارے میں ادا کی گئی مثبت خبروں میں شامل ہیں
ادائیگی شدہ مثبت خبریں۔۔۔۔۔۔
businesstoday.pk/muhammad-burhan-mirzas-contribution-to-pakistans-it-industry
propakistani.pk/2025/01/14/in-conversation-with-burhan-mirza-empowering-youth-through-skills360-and-career-coaching
technologyplus.pk/2025/08/04/muhammad-burhan-mirza-how-pakistans-people-can-power-its-digital-future
arynews.tv/muhammad-burhan-mirza-coach360-pakistan-youth
pakobserver.net/empowering-youth-through-purpose-muhammad-burhan-mirzas-mission-to-bridge-pakistans-opportunity-gap
فرشتہ سرمایہ کار کا جھوٹ (Angel Investor Lie)
برہان مرزا کراچی پاکستان میں 30 سے زیادہ فراڈ سافٹ ویئر ہاؤسز پر حقیقی کنٹرول رکھتا ہے۔ برہان مرزا کے زیرِ ملکیت اور زیرِ انتظام چند بڑے جعلی سافٹ ویئر ہاؤسز یہ ہیں
The Techrics: زین ریحان صدیقی، صبیح خان، میر اسد، عامر بن قاسم، سیف بن قاسم۔
Awsomate (Pvt) Ltd: الحان پرویز خان (برہان مرزا کی جانب سے)۔
ProTech (Pvt) Ltd: عبدالرحمن چھوٹانی، ولید یوسف، ریحان صدیقی، انس چھوٹانی، زید عطیق۔
ProByte (Pvt) Ltd: کاشف حسین شاہ، عظیم احمد۔
Sky Soft Tech (Pvt) Ltd: معیز عبد الستار، شاہمیر احمد، نیاز احمد، حسیب احمد۔
Technado (Pvt) Ltd: عرفان اقبال، جنید منصور، شفاعت ایوب، جمیل قاضی، شوزیب جعفری۔
یہ کمپنی نہ صرف بڑے پیمانے پر آن لائن فراڈ میں ملوث ہے بلکہ عرفان اقبال اور برہان مرزا نے TradeKey اور ExportHub جیسے برانڈز کے ذریعے امریکہ میں منشیات کی غیر قانونی ترسیل میں بھی کردار ادا کیا ہے، اور ان کے خلاف امریکی ادارے FBI، DEA، HSI، اور DOJ تحقیقات کر رہے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ تمام سافٹ ویئر ہاؤسز خود مختار نہیں ہیں۔
یہ سب “Digi گروپ” کا حصہ ہیں اور براہِ راست برہان مرزا کے کنٹرول میں ہیں۔
ان کمپنیوں کے پیداواری شعبے مشترک ہیں اور زیادہ تر صورتوں میں Slack ایپ کے ذریعے اندرونی رابطہ کیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ برہان مرزا نے اتنی زیادہ جعلی کمپنیاں اور جعلی CEO کیوں بنائے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ FIA کے چھاپوں سے بچنا اور جیل جانے سے بچاؤ چاہتا ہے۔
مزید برآں برہان مرزا نے فزیکل سیکیورٹی کے سخت انتظامات جیسے باڑیں، رکاوٹیں اور دیگر حفاظتی دیواریں تعمیر کر رکھی ہیں تاکہ FIA کے لیے ان کی عمارتوں میں داخل ہونا مشکل ہو جائے۔
جعلی ای بُک پبلشنگ اسکینڈل ، ایک تحقیقی جائزہ
گزشتہ چند برس میں آن لائن دنیا میں جعلی پبلشنگ کمپنیوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان کمپنیوں نے خود کو معروف بین الاقوامی اداروں کے طور پر پیش کیا اور متاثرہ افراد کو کتابیں شائع کرانے، مارکیٹنگ کرنے یا انہیں عالمی سطح پر فروغ دینے کے وعدے کر کے لاکھوں روپے یا ڈالرز بٹورے۔
یہ کمپنیاں زیادہ تر بیرونِ ملک لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں، خاص طور پر اُن افراد کو جو اپنی زندگی کی کہانی یا ذاتی تجربات پر مبنی کتاب شائع کرانا چاہتے ہیں۔ متاثرہ افراد عام طور پر گوگل یا دیگر سرچ انجنز پر “Book Publishing” یا “Self Publishing” کے الفاظ سے تلاش کرتے ہیں۔ انہیں ایسی ویب سائٹس دکھائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں معروف اداروں (جیسے Amazon وغیرہ) سے مشابہ لگتی ہیں۔
جب متاثرہ شخص ان ویب سائٹس پر اپنی تفصیلات جمع کراتا ہے تو کمپنی کے نمائندے اس سے رابطہ کرتے ہیں۔ ابتدا میں وہ پیشہ ورانہ لہجے میں بات کرتے ہیں، لیکن بعد میں مختلف بہانوں سے اضافی رقم طلب کرتے ہیں جیسے کہ کتاب کی ایڈیٹنگ، مارکیٹنگ، یا فلم میں تبدیلی کے جھوٹے وعدے کئے۔
کچھ واقعات میں ان کمپنیوں کے ملازمین نے متاثرہ افراد سے قریبی تعلقات بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے جعلی ناموں، شناختی دستاویزات، اور جھوٹی کہانیوں کے ذریعے متاثرین کا اعتماد حاصل کیا۔ بعد ازاں انہی تعلقات کو مالی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا گیا، جسے ایک قسم کا جذباتی اور مالی استحصال کہا جا سکتا ہے۔
فراڈ سے حاصل شدہ رقم عموماً مختلف کمپنیوں کے ناموں سے بینکوں یا آن لائن ادائیگی کے نظاموں میں منتقل کی جاتی ہے۔ یہ کمپنیاں بظاہر قانونی کاروبار کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں مگر ان کا اصل مقصد صرف پیسہ چھپانا اور منی لانڈرنگ کرنا ہوتا ہے۔
ایسے دھوکوں کے نتیجے میں متاثرہ افراد نہ صرف مالی نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ جذباتی طور پر بھی شدید صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ کئی لوگوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی کھو دی اور بعض نے ذہنی دباؤ یا مایوسی کا بھی سامنا کیا۔
یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ آن لائن پبلشنگ یا سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے معاہدہ کرنے سے پہلے مکمل تحقیق ضروری ہے۔ ہمیشہ اصل ادارے کی ویب سائٹ چیک کریں، ڈومین ایڈریس اور کمپنی رجسٹریشن کی تصدیق کریں، اور کبھی بھی ادائیگی بغیر مکمل یقین کے نہ کریں۔
ٹیکساس میں PestleTech کے احمد عمر طارق
جب ایلزبتھ اسٹارک ویٹکے ہالگرین کے ساتھ ہونے والا ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، تو PestleTech نے اس کے استحصال کو مزید بڑھا دیا۔ انہوں نے اسے ایک نام نہاد وکیل سے متعارف کرایا جس نے وعدہ کیا کہ وہ اس کی کھوئی ہوئی رقم واپس دلانے میں مدد کرے گا۔
یہ "وکیل” شیخ عکیب مجید تھا، جو اپنے اصل نام کے ساتھ ساتھ ایک جعلی شناخت "ڈینیئل جے. کریمر” کے نام سے بھی کام کرتا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ ایک مشہور امریکی لاء فرم Buchalter کے لیے کام کرتا ہے۔
بھٹہ طارق ٹیکساس سے، دہشت گردی کی مالی معاونت کا خطرہ، منی لانڈرر
بھٹہ طارق ٹیکساس سے، PestleTech کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔
ابتدا میں شیخ عکیب مجید نے خود کو ایک ہمدرد مشیر کے طور پر پیش کیا، ایلزبتھ کو یقین دلایا کہ وہ قانونی نظام کو سمجھتا ہے اور اس کے پیسے واپس دلا سکتا ہے۔
لیکن حقیقی قانونی مدد فراہم کرنے کے بجائے، اس نے انتہائی غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا ایک ایسی خاتون سے، جو عمر میں اس کی ماں سے بڑی تھی، فلرٹ کرنا شروع کیا۔
اس نے جنسی تبصرے کیے، اسے ذاتی گفتگو میں الجھایا، اور یہاں تک کہ اسے بتایا کہ وہ کنوارا ہے، لیکن اس نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ زبانی جنسی تعلقات رکھے ہیں۔
برہان مرزا کا ملازم ضعیم صدیقی متاثرہ خاتون ایلزبتھ کے ساتھ تھائی لینڈ میں موجود تھا۔
ہفتوں تک، ایلزبتھ یہ سمجھتی رہی کہ آخرکار اسے کوئی ایسا شخص مل گیا ہے جو نہ صرف اس کا ساتھ دے رہا ہے بلکہ اس کی بطور انسان پرواہ بھی کرتا ہے۔
لیکن درحقیقت، شیخ عکیب مجید کا مقصد صرف ریفنڈ میں تاخیر کرنا تھا۔
اس نے ایلزبتھ سے کہا کہ اس کی ادائیگی ریفنڈ کی مدت سے باہر ہے، حالانکہ وہ ریفنڈ ونڈو کے اندر تھی۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ای بُک فراڈ (eBook scam) کس طرح اب رومانس اسکیمز میں تبدیل ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے برہان مرزا پر امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔
بریرہ طارق، پیسٹل ٹیک کی مالک، برہان مرزا کی سابق ساتھی
پیسٹل ٹیک کے فراڈیوں کا کرکٹ میچ
ایف بی آئی، ڈی ای اے، ایچ ایس آئی، ڈی او جے برہان مرزا پر امریکا میں متعدد ایجنسیوں کی مشترکہ تفتیش جاری ہے
DIGINADO TECHNOLOGIES INC، جو برہان مرزا کی ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جنہیں وہ الیزبتھ جیسے متاثرین سے رقم وصول کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا، اس وقت فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (FBI)، ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشنز (HSI)، ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (DEA)، اور ڈپارٹمنٹ آف جسٹس (DOJ) کی جانب سے مشترکہ تفتیش کے دائرے میں ہے۔
یہ ایجنسیاں چھ ماہ سے زائد عرصے سے مرزا کے مجرمانہ نیٹ ورک کی تحقیقات کر رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر برہان مرزا نے اتنی امریکی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی توجہ کیوں حاصل کی ہے؟
جواب صرف ان کروڑوں ڈالرز میں نہیں چھپا جو اس نے امریکی متاثرین سے دھوکے کے ذریعے ہتھیائے ہیں، بلکہ ان الزامات میں بھی ہے کہ وہ مصنوعی منشیات خصوصاً فینٹینائل کے مشابہ کیمیکلز (جن کی طاقت ہیروئن سے کہیں زیادہ ہوتی ہے) کی اسمگلنگ میں بھی ملوث ہے۔
یہ الزام پہلی بار ٹریڈ کی (TradeKey) کے خلاف 2018 میں سامنے آیا تھا۔
اپنے امریکی کاروباری شراکت داروں اور معاونین محمد اے حشمت، قاسم منصور، بلال حشمت، اور اسداللہ چوہدری کے ذریعے مرزا نے امریکا میں ایک خفیہ مالیاتی نیٹ ورک قائم کیا۔
یہ متوازی ادائیگیوں کا نظام ایک نجی بینکاری ڈھانچے کی طرح کام کرتا رہا، جو نہ صرف برہان مرزا کے منظم جرائم کے گروہ بلکہ پاکستان، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں سرگرم مجرمانہ گروہوں کے لیے بھی لاکھوں ڈالر منتقل کرتا رہا۔
ذرائع کے مطابق امریکی حکام اس نیٹ ورک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کا بڑا خطرہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مرزا اب “آپریشن ٹیک بیک امریکا” (Operation Take Back America) کے تحت ایک بین الادارہ جاتی ٹاسک فورس کا ہدف بن چکا ہے۔
ایف بی آئی کا الاسکا دفتر بھی برہان مرزا کے خلاف ایک تفتیش کر رہا ہے، جو اس کے اُس بڑے “ڈینائل آف سروس” (DDoS) سائبر حملے سے متعلق ہے جو اس نے ایک ایسی ویب سائٹ پر کیا تھا جو اس کے بارے میں خبریں شائع کر رہی تھی۔
ابھی تک ٹریڈ کی (TradeKey) اور ایکسپورٹ حب (ExportHub) دونوں برہان مرزا کی ملکیت ویب سائٹس پر غیر قانونی منشیات جیسے فینٹینائل، کارفینٹینائل، اور میتھ ایمفیٹامائن کے خام کیمیکلز (precursors) برائے فروخت درج ہیں۔
برہان مرزا کے خلاف مقدمات کے چارجز نومبر 2025 سے پہلے داخل کیے جانے کی توقع ہے۔
آنے والی کارروائی کے آثار پہلے ہی ظاہر ہو چکے ہیں۔
کراچی میں یہ بات عام ہے کہ مرزا کے مرچنٹ اکاؤنٹس مئی 2025 میں بند ہونا شروع ہوئے اور امریکی حکام نے مئی سے جولائی 2025 کے درمیان بڑی رقوم ضبط کر لیں۔
اس کے نتیجے میں ProTech (Pvt) Ltd، Sky Soft Tech (Pvt) Ltd، ProByte (Pvt) Ltd، اور Technado (Pvt) Ltd میں ملازمین کو برخاست کیا گیا اور تنخواہیں روک دی گئیں۔
عرفان اقبال، ٹیکنادو، ٹریڈ کی، شوزیب جعفری
برہان مرزا اور جنید منصور کے زیر انتظام اسکیم سافٹ ویئر ہاؤسز کے نیٹ ورک میں، ٹیکنادو خاص طور پر امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ یہ براہِ راست منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث رہا ہے۔ عرفان اقبال ٹیکنادو پرائیویٹ لمیٹڈ، ایکسپورٹ ہب، او آئی پی (آؤٹ سورس ان پاکستان)، ٹیکنو کلاؤڈ سولیوشنز، اور بائنیٹ ڈیجیٹل چلاتے ہیں۔
عرفان اقبال نے برہان مرزا کے جعلی سی ای او کے طور پر کام کرکے بہت زیادہ منافع حاصل کیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ اسکیم سے حاصل ہونے والی رقم جمع، منی لانڈرنگ، اور چھپائی جائے۔ یہ آپریشنز کراچی کے شاہراہ فیصل کے دفاتر (سوئٹس 301، 308، اور 808) سے چلائے جاتے ہیں، جہاں 100 سے زائد ملازمین انتہائی مشکل حالات میں کام کرتے ہیں اور اکثر مہینوں تک تنخواہ بھی نہیں ملتی۔
ایک وِسل بلور نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کے کئی ساتھیوں کو چھ ماہ کی تنخواہ نہیں دی گئی، حالانکہ کمپنیوں نے ماہانہ $55,000 سے $100,000 کی آمدنی جعلی ممبرشپ فیس اور اسکیمز سے حاصل کی۔ یہ آمدنی منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقم میں شامل نہیں ہے۔ جو ملازمین احتجاج کرتے، انہیں “فنڈز نہیں ہیں” کے بہانے خاموش کرا دیا جاتا، جبکہ کمپنیوں نے بیرون ملک کلائنٹس سے دھوکہ دہی جاری رکھی۔ بعض ملازمین اتنے مایوس ہوئے کہ انہوں نے خودکشی پر غور کیا۔
وِسل بلور نے مزید بتایا کہ ٹیکنادو اور ایکسپورٹ حب نے ایک امریکی کلائنٹ کو جعلی کراٹم ڈیل میں $60,000 سے دھوکہ دیا۔ خریدار نے رقم ٹریڈ کی کے چینی اکاؤنٹ میں منتقل کی، توقع کے ساتھ کہ مال فراہم کیا جائے گا، لیکن رقم عرفان اقبال اور ان کے قریبی ساتھی شفاعت ایوب نے سپلائرز کو منتقل کرنے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لی۔ اندرونی ذرائع کے مطابق، کلائنٹس سے رقم لینا اور کبھی آرڈرز پورے نہ کرنا، ٹریڈ کی، ایکسپورٹ حب ، اور ان کے برادران برانڈز کے لیے طویل عرصے سے معیاری کاروباری طریقہ رہا ہے۔
یہ منصوبہ کراچی سے آگے بھی بڑھتا ہے۔ ادائیگیاں امریکی اور چینی بینک اکاؤنٹس کے جال کے ذریعے کی جاتی ہیں، جس میں ٹیکساس میں ڈیگیناڈو ٹیکنالوجیز انک شامل ہے، جو محمد اے حشمت سے منسلک ہے، اور دیگر منی لانڈرنگ فرنٹس جیسے کنٹینینٹل آئی ٹی کانسپٹ LLC۔ ملازمین کی تصدیق کے مطابق، کریپٹو والٹس بھی استعمال ہوتے ہیں تاکہ امریکہ، روس اور دیگر ممالک کے متاثرین سے جعلی ممبرشپ فیس وصول کی جا سکے۔
پردے کے پیچھے، ایک چھوٹا گروہ ان مجرمانہ فنڈز کے بہاؤ کو منظم کرتا ہے: عرفان اقبال، شفاعت ایوب، اور جمیل قاضی۔ یہ تینوں کلائنٹس سے دھوکہ، اندرونی آمدنی کی چالاکی اور اجرت کی چوری سنبھالتے ہیں۔ مالیات کی نگرانی محمد رشید صدیقی کرتے ہیں، جو صرف عرفان کے لیے نہیں بلکہ برہان مرزا اور جنید منصور کے لیے بھی پیسہ سنبھالتے ہیں۔
برہان مرزا، جنید منصور اور عرفان اقبال نے شیخ ولید، سعودی سرمایہ کار جس نے 2006 میں (ٹریڈ کی) کو فنڈ کیا تھا، سے آمدنی کے حصے روکے ہوئے ہیں۔ جبکہ ولید کو یقین ہے کہ کمپنی گر چکی ہے، عرفان اسے خفیہ طور پر برہان اور جنید کے ساتھ چلا رہا ہے، منافع نکالتے ہوئے اصل سرمایہ کار کو بے خبر رکھا گیا ہے۔
سمیرا سہیل برہان مرزا (عرف سمیرا سہیل مرزا)، برہان مرزا کی بیوی
برہان مرزا نے اپنے فراڈ، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم سے حاصل ہونے والے قابلِ ذکر اثاثے سمیرا سہیل برہان مرزا کے نام کر رکھے ہیں، جو سمیرا سہیل مرزا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے غیر اعلام شدہ اثاثے UAE، UK، اور سویڈن میں ہیں۔ سمیرا سہیل برہان مرزا ایک سیاسی طور پر نمایاں شخصیت (PEP) ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں ایک اعلیٰ افسر کی بہن ہیں۔
برہان مرزا کے مجرمانہ منی لانڈرنگ ایجنٹس
محمد اے حشمت، ٹیکساس اور نیو جرسی
بلال محمد، ٹیکساس
عمیر عبدالکریم، ٹیکساس
زنیرہ رشید، ٹیکساس
نصیر محمد، نیویارک
بھٹہ طارق ٹیکساس (برہرا طارق کے لیے بھی کام کر رہی ہیں)
محمد اشمد، ٹیکساس
محمد طہ، ٹیکساس
غزالہ جبین، ٹیکساس (لیجنڈیسک کے لیے فرنٹ کے طور پر بھی)
احمد یعقوب واغر، ٹیکساس (لیجنڈیسک کے لیے فرنٹ کے طور پر بھی)
محمد یعقوب اور فریدا اسماء واغر، ٹیکساس
سید ایم شاہ، میری لینڈ
کاشف علی، اسکاٹ لینڈ
برہان مرزا کی کمپنیاں
Lezio Consultation & Technologies LLC
Revotech LLC
Novatek Intl LLC
Socoba LLC
Solutech LLC
Nestech 360 Corporation
End to End Digitals LLC
Synthilogic Systems LLC
Revolusys Inc
Cmolds Tech LLC
Neoplex Media Inc
Digideck LLC
Think Tank Visions LLC
Diginado Technologies Inc
ExportHub Inc
RCM Matter (medicare/medicaid اسکیمز)
Nestech Media LLC
Continental IT Concept LLC
AppMization
Webtonics
Celect Studio
Nexus Verge Tech
Zenosphere Studios
AppsNado
Meraki App Studio
Fictive Studios
PANACELLA LTD
TREND N RANGES LTD
INBIZ CONSULTATION AND TECHNOLOGIES LTD
برہان مرزا کے پتے (USA اور UK/Scotland):
17622 Rose Summit Lane, Richmond, TX 77407, USA
7219 Rocky Ridge Lane, Richmond, TX 77407, USA
2626 Fountain View Dr, Houston, Apt 401, TX 77057, USA
6907 Aspen Highlands Ct, Richmond, TX 77407-2315, USA
5900 Balcones Drive, Ste 6217, Austin, TX 78731, USA
523 Taskwood Dr, Building, 523 Taskwood Dr, USA
1522 Copeland Road, Catonsville, MD 21228, USA
1401 21st Street, Suite R, Sacramento, CA 95811, USA
8 The Green, Ste A, Dover, DE 19901-3618, USA
260 Madison Avenue, 8th Floor, New York, NY 10016, USA
5900 Balcones Drive, Suite 100, Austin, TX 78731, USA
13785 Research Blvd, Suite 125, Austin, TX 78729, USA
4 Inveravon Drive, Motherwell, Scotland, ML1N 3BQ, UK
3e, Balfour House 390-398 High Rd, Ilford IG1 1TL, UK
نوٹ واضح رہے کہ آئی ٹی کمپنی اور اس سے منسلک افراد پر لگائے جانے والے الزامات بین الاقوامی صحافی کی ویب سائٹ سے ترجمہ کئے گئے ہیں ۔تحقیقات ڈاٹ کام نے صرف اپنے قارئین کے لئے اسے ترجمہ کیا ہے