سندھ ہائی کورٹ کراچی نے 22 ستمبر 2025 کو جاری اپنے فیصلے میں واضح کر دیا ہے کہ تمام ریاستی اداروں (State-Owned Enterprises) کے ٹیکس تنازعات ایف بی آر کی قائم کردہ متبادل تنازعہ حل کمیٹی (ADR Committee) کے ذریعے نمٹائے جائیں گے۔ عدالت نے حسین علی المانی و اکبر سہیل ایڈووکیٹس کی جانب سے دائر انکم ٹیکس ریفرنس ایپلی کیشنز 199 تا 202 برائے 2024 کو انہی بنیادوں پر نمٹاتے ہوئے متعلقہ کیسز ایف بی آر کے پاس بھیج دیے۔


فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ یہ ریفرنسز بھی ریاستی اداروں کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں، لہٰذا انہیں بھی عدالتِ عالیہ کے 11 اگست 2025 کے فیصلے (ریفرنس نمبر 182/2018، کراچی پورٹ ٹرسٹ کیس) کے مطابق اے ڈی آر کو بھیجا جائے۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ اگرچہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 134-A میں ترمیم 2024 میں کی گئی، مگر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں نے متعدد مقدمات میں واضح کر دیا ہے کہ اب تمام سرکاری اداروں کے مالی تنازعات لازمی طور پر ADR کمیٹی کو بھیجے جائیں گے۔

عدالت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان اسٹیٹ لائف، آئیسکو اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے مقدمات کے حوالہ سے کہا کہ ترمیمی قانون "طریقہ کار سے متعلق” (Procedural in Nature) ہے اور اس سے کسی فریق کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے، تاکہ ریاستی اداروں کے اندرونی تنازعات عدالتوں کی بجائے ایف بی آر کے دائرہ کار میں حل ہوں۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ دراصل حکومت کا اپنا معاملہ ہے ایک جیب سے رقم نکال کر دوسری میں ڈالنے کے مترادف۔ اس کا بوجھ آخرکار حکومت پر ہی آتا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ عدالتوں پر غیرضروری بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنے تمام اداروں کو متبادل تنازعہ حل کے طریقہ کار (ADR) کے تحت معاملات نمٹانے کی ہدایت کرے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ ان تمام کیسز کو ایف بی آر کے پاس بھیجا جائے تاکہ دفعہ 134-A کے تحت اے ڈی آر کمیٹی تشکیل دی جائے اور جب تک کمیٹی فیصلہ نہ دے، درخواست گزار کے خلاف کوئی زبردستی وصولی یا کارروائی نہ کی جائے۔
مزید کہا گیا کہ اگر کمیٹی کے فیصلے سے درخواست گزار مطمئن نہ ہو تو اسے قانون کے مطابق اپیل کا حق حاصل رہے گا۔
فیصلے میں اے ڈی آر کے تاریخی پس منظر پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی، جس کے مطابق یہ نظام پہلی بار 1996 میں متعارف ہوا، بعد ازاں 2004 میں مختلف مالیاتی قوانین میں شامل کیا گیا۔
تازہ ترین ترامیم کے مطابق اب ریاستی اداروں کے لیے ADR میں جانا لازمی قرار دیا گیا ہے، اور اس پر پچاس ملین روپے کی حد کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی حالیہ فیصلوں میں "عدالتی نظام کے بوجھ کو کم کرنے اور ثالثی (Mediation) کے فروغ” پر زور دیا ہے، اور ADR کو عالمی انصاف کے جدید رجحان کے مطابق قدم قرار دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے جامع فیصلے میں ریاستی اداروں کے لیے واضح کر دیا ہے کہ وہ مستقبل میں ٹیکس تنازعات کے حل کے لیے عدالتوں کے بجائے ایف بی آر کی ADR کمیٹی سے رجوع کریں۔
یہ اقدام نہ صرف عدالتی نظام کے دباؤ میں کمی لائے گا بلکہ سرکاری اداروں کے اندرونی مالی جھگڑوں کے تیز تر حل کو بھی یقینی بنائے گا۔