کسٹمز اور ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے افسران کی ملی بھگت سے کراچی کی معروف چھالیہ کمپنیوں کے لیے انتہائی مضر صحت چھالیہ کو اکشن کے ذریعے کلیئر کروانے کی خطرناک کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

نومبر 2023 میں میسرز آر اے امپکس کے نام پر انڈونیشیا سے درآمد کی گئی چھالیہ کی کنسائنمنٹ کو افلاٹوکسن رپورٹ میں 68 بی پی پی پایا گیا، لیکن کلئیرنس ایجنٹس اور پلانٹ پروٹیکشن کے افسران کی ملی بھگت سے رپورٹ میں خلاف ضابطہ تبدیلی کرتے ہوئے اسے 18 بی پی پی ظاہر کیا گیا، جس پر کسٹمز انٹیلی جنس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے کنٹینرز کو بلاک کر دیا۔


تاہم حیرت انگیز طور پر چھ ماہ گزرنے کے باوجود ضبط شدہ کنسائنمنٹس کو تلف نہیں کیا گیا۔ اسی دوران میسرز آر اے امپکس کے ملازم ارشد کو ایف آئی اے منی لانڈرنگ سیل نے گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر کمپنی نے ایف آئی اے افسران کو سنگین دھمکیاں دیں۔ بعد ازاں کسٹمز افسران کو بھی دباؤ میں لانے کی کوششیں کی گئیں، تاہم کسٹمز انٹیلی جنس نے قانونی کارروائی جاری رکھی۔

ذرائع کے مطابق مضر صحت چھالیہ درآمد کرنے والی کمپنی نے پورٹ پر ضبط شدہ کنٹینرز کو تلف نہیں ہونے دیا، اور اب تقریباً دو برس بعد انہی کنٹینرز کو اکشن کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کسٹمز انٹیلی جنس کی عدالت میں موجود رپورٹ کے مطابق کراچی کی معروف میٹھی چھالیہ تیار کرنے والی کمپنیوں میسرز کرن فوڈز، تلسی سمیت دیگر نے ان ضبط شدہ کنسائنمنٹس کے لیے کروڑوں روپے کی ایڈوانس ادائیگیاں کی تھیں۔
یہ بھی انکشاف ہوا کہ میسرز آر اے امپکس نے یہ چھالیہ کی پہلی کنسائنمنٹ امپورٹ کی تھی، جس پر انٹیلی جنس حکام نے سوال اٹھایا کہ چھالیہ کی بڑی کمپنیوں نے پہلی بار درآمد کرنے والے امپورٹر پر اتنا غیر معمولی اعتماد کس کے کہنے پر کیا؟


اب کلکٹریٹ آف اپریزمنٹ ویسٹ نے مضر صحت قرار دی گئی چھالیہ کی بھاری مقدار، تقریباً دو سو ٹن،اکشن کے زریعے نیلام کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ میسرز آر اے امپکس کی طرح ہی کسی ڈمی کمپنی کو اکشن کے زریعے فروخت کردیا جائے۔ یہ چھالیہ 2023 میں درآمد کی گئی تھی اور دو مختلف لیبارٹریز میں افلاٹوکسین کی خطرناک حد سے زیادہ مقدار سامنے آنے پر اس کی کلیئرنس روک دی گئی تھی۔
تاہم دو سال بعد اپریزمنٹ ویسٹ کی ایک خاتون ڈپٹی کلکٹر نے مبینہ طور پر درآمد کنندہ کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے انہی کنسائنمنٹس کے نمونے تیسری مرتبہ لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے پی ایس کیوسی اے بھجوا دیے۔
ابتدائی طور پر وہاں بھی افلاٹوکسین نامی زہریلا مادہ خطرناک سطح پر پایا گیامگر بعد میں رپورٹ کے مندرجات میں تبدیل کی گئیں۔
قانونی طریقہ کار کے مطابق کسٹمز محکمے کو خود سیمپل ٹیسٹ کے لیے بھیجنے کا اختیار حاصل نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے ریفرنس ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کو بھیجا جانا ضروری ہے۔تاہم کورئیر رسید کے مطابق ایک کسٹمز اہلکار نے خود سیمپل پارسل بک کرایا جبکہ ٹیسٹنگ فیس کی رقم بیس ہزار روپے درآمد کنندہ نے سونیری بینک شارع فیصل برانچ کے چیک کے ذریعے ادا کی جو خود اس ملی بھگت کا واضح ثبوت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لیبارٹری رپورٹس میں دانستہ ہیرا پھیری کر کے مضر صحت چھالیہ کو نیلامی کے لیے اہل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، حالانکہ قانون کے مطابق ایسے خوردنی سامان جنہیں دو مرتبہ مضر صحت قرار دیا جا چکا ہو، ان کی نیلامی کسی صورت جائز نہیں۔
یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ مضر صحت چھالیہ کو دوبارہ صحت مند ظاہر کرنے کے پیچھے کون سا گروہ ہے؟
دو سال تک ضبط شدہ کنٹینرز تلف کیوں نہیں کیے گئے؟
کیا کسٹمز اور پلانٹ پروٹیکشن کے افسران نے دانستہ طور پر قانون کی خلاف ورزی کی؟
اور آخر وہ کون سا دباؤ تھا جس کے تحت نیلامی کی تیاریاں شروع کی گئیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے میں بدعنوانی، اثرورسوخ اور ادارہ جاتی کمزوریوں کی بدترین مثال سامنے آئی ہے، لہٰذا وفاقی حکومت، ایف بی آر اور اینٹی کرپشن اداروں کو فوری طور پر اس سازش کی عدالتی سطح پر تحقیقات شروع کرنی چاہیے تاکہ یہ خطرناک سامان انسانی خوراک کی مارکیٹ میں داخل ہونے سے پہلے تلف کیا جا سکے۔
کسٹمز حکام سے اس سنگین معاملے پر مؤقف دینے سے انکار کردیا ہے۔