جامعہ کراچی جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو دانستہ طور پر مالی کمزوری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ داخلہ فارم کی کم فروخت اور طلبہ کی بےرغبتی محض انتظامی نااہلی نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے جس سے منسلک نجی انسٹیٹیوٹ کو بھرپور فائدہ حاصل ہو رہا ہے جبکہ جامعہ کے تدریسی شعبہ جات مسلسل زوال کی طرف جا رہے ہیں۔

جامعہ کراچی کی موجودہ انتظامیہ مالی طور پر ادارے کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ گزشتہ چار برس میں داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر موجود 19 شعبہ جات میں داخلہ فارم جمع کرانے کی تعداد بتدریج کم ہو کر 30 فیصد سے بھی نیچے گر چکی ہے، جبکہ وائس چانسلر کی پالیسیوں نے طلبہ کا رجحان جامعہ سے ہٹا کر پرائیویٹ آواز انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز کی طرف منتقل کر دیا ہے۔

سال 2026 کے داخلوں کے لیے جامعہ کراچی نے 19 مختلف شعبہ جات میں بی ایس، بی ایڈ آنرز، بی ای، چار سالہ اور پانچ سالہ ڈپلومہ پروگرامز کے فارم کا اجراء کیا، مگر طلبہ کی کم دلچسپی کے باعث 10 اکتوبر 2025 کی آخری تاریخ میں اضافہ کر کے 15 اکتوبر کرنی پڑی۔ اس کے باوجود فارم جمع کرانے والوں کی تعداد گزشتہ چار برس کے مقابلے میں 30 فیصد سے بھی کم ہے۔زرائع کے مطابق رواں سال ٹیسٹ بنیاد پر داخلے والے شعبہ جات میں تقریباً 2800 طلبہ نے فارم جمع کروائے اور انتظامیہ کو پہلی مرتبہ فارم کی تاریخ میں تیسری بار توسیع کا فیصلہ کرنا پڑا، جو انتظامی نااہلی اور پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق
2022 میں 13,700 طلبہ نے فارم حاصل کیے
2023 میں 11,204
2024 میں 8,098
2025 میں صرف 7,393 طلبہ نے فارم حاصل کئے۔یہ اعداد صرف ان شعبہ جات کے ہیں جہاں داخلے ٹیسٹ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، جبکہ میرٹ، سیلف فنانس اور ایوننگ پروگرامز اس کے علاوہ ہیں۔
جامعہ کے اساتذہ کے مطابق موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں نے نہ صرف جامعہ کراچی کی ساکھ اور تعلیمی معیار کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں آواز انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز جیسے منسلک پرائیویٹ اداروں کو براہِ راست مالی و تدریسی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔۔واضح رہے کہ مذکورہ انسٹیٹیوٹ نرسری کے ایک بنگلے سے منتقل ہو کر اب پی ٹی سی ایل گلشن اقبال کی عمارت میں قائم ہوچکا ہے، جہاں طلبہ کو 50 فیصد مارکس پر بغیر داخلہ ٹیسٹ کے داخلے دیے جا رہے ہیں۔

مزید انکشاف ہوا ہے کہ اس پرائیویٹ ادارے میں نہ فیکلٹی ممبر ہونے کی سخت شرط ہے، نہ 75 فیصد حاضری کا دباؤ، بلکہ امتحان میں کامیابی اور اچھی ڈویژن کے ساتھ کلئیر کرنے کی سہولت بھی میسر ہے اور فیس جامعہ کراچی سے کم ہے۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ جب جامعہ انتظامیہ خود ایسی سہولیات نجی اداروں کو فراہم کرے گی تو طلبہ کا رجحان لازمی طور پر انہی اداروں کی طرف ہوگا، جبکہ جامعہ کراچی کے داخلہ فارم دفتر کی الماریوں میں بند رہ جائیں گے۔
جامعہ کراچی کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال صرف انتظامی نالائقی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند مفاداتی کھیل ہے۔ مبینہ طور پر بعض اعلیٰ افسران اور انتظامی شخصیات نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن سے جامعہ کی داخلہ پالیسی کمزور اور منسلک نجی ادارے مضبوط ہوتے گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ داخلہ فارم کی کم فروخت سے پیدا ہونے والا مالی خسارہ دراصل ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، تاکہ بعد ازاں جامعہ کے پروگرامز کو غیر منافع بخش قرار دے کر انہیں نجی ماڈل میں ضم کیا جا سکے۔
اساتذہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی تو جامعہ کراچی جیسے قومی تعلیمی ادارے کو دانستہ طور پر دیوالیہ پن کے قریب پہنچا دیا جائے گا اور اس کی جگہ منافع بخش نجی انسٹیٹیوٹ لے لیں گے، جنہیں اعلیٰ سطحی انتظامیہ کی غیر اعلانیہ پشت پناہی حاصل ہے۔