Screenshot_2025_0807_220552

پاکستان کسٹمز، سندھ پولیس، حساس اداروں اور چھالیہ مافیا کے گٹھ جوڑ پر مبنی اسکینڈل بے نقاب ،زیرو ٹالرنس پالیسی ردی کی ٹوکری میں، رشوت 30 کروڑ ماہانہ سے تجاوز، 650 کنٹینروں کی اسمگلنگ، 100 ارب روپے سالانہ ڈاکا اور جعلی رپورٹس کے ذریعے مضر صحت چھالیہ مارکیٹ میں پھیلایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون کہاں ہے؟ اور ریاست کس کی محافظ ہے مافیا کی یا عوام کی؟

پاکستان کسٹمز میں اسمگلنگ نیٹ ورک کے خلاف دو برس قبل ایف آئی اے کے مقدمے اور ’’زیرو ٹالرنس پالیسی‘‘ کے دعوؤں کے باوجود چھالیہ اسمگلنگ کا نیٹ ورک کمزور ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ طاقتور، منظم اور بے باک ہو چکا ہے۔ حساس اداروں کی خفیہ رپورٹ کے بعد ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے جب پاکستان کسٹمز، سندھ پولیس، حساس اداروں اور چھالیہ نیٹ ورک سے منسلک کمپنیوں کے مالکان کے خلاف کارروائی شروع کی تو اس وقت چھالیہ مافیا پاکستان کسٹمز کو ماہانہ 15 کروڑ روپے رشوت ادا کر رہا تھا۔ اُس وقت 20 سے 25 کنٹینر امپورٹ ظاہر کیے جاتے تھے جبکہ اصل دھندا 300 کے قریب اسمگل کنٹینروں پر چل رہا تھا۔

لیکن دو سال بعد نتیجہ یہ نکلا کہ ایف آئی اے کے مقدمات سرد خانے میں دفن، نامزد افسران بچ نکلے، فیکٹریاں کاغذوں میں سیل، مگر انہی پتوں پر انہی برانڈز کی چھالیہ بازار میں پھر بھی دستیاب! کارروائی رکی، مگر ماہانہ نرخ بڑھ گئے پاکستان کسٹمز پریوینٹیو کے بدعنوان افسروں نے اب 30 کروڑ سے زائد ماہانہ بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ یوں امپورٹ 50 کنٹینروں تک پہنچا دی گئی اور اسمگلنگ 650 کنٹینر ماہانہ تک پھلا دی گئی یعنی جرائم کم نہیں، بلکہ ریٹس بڑھا کر مزید محفوظ بنادیے گئے۔

ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن جو چھالیہ امپورٹرز کو این او سی جاری کرتا ہے، نا پہلے پکڑا گیا نا آج تک۔ WHO نے چھالیہ میں Aflatoxin کی حد 20 BPP رکھی ہے مگر پاکستان میں 70 BPP تک زہریلی چھالیہ لیبارٹری رپورٹس میں جعلی کٹوتیوں کے ذریعے صاف ظاہر کروا کر کلئیر کرائی جاتی ہے۔ سوال: یہ جعل سازی کس کے حکم پر؟ کس کے علم میں؟ اور کیوں؟

ملک بھر میں بھارتی گٹکا اور چھالیہ کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار 50 کنٹینر جبکہ زمینی حقیقت 650 کنٹینر یہ 12 گناہ تضاد کسٹمز سسٹم کی بدعنوانی، ناکامی اور ملی بھگت کا زندہ ثبوت ہے۔ سابق افسران کے مطابق 2019 میں 15 کروڑ ماہانہ رشوت دی جاتی تھی اور جب ڈالر 150 سے 283 تک پہنچ گیا تو آج ریٹ کہاں ہوگا؟ جواب خود موجود ہے۔

کراچی میں 14 بڑی فیکٹریاں اور 200 سے زائد چھوٹی فیکٹریاں میٹھی سپاری اور گٹکا بنا رہی ہیں لیکن صرف ایک رجسٹرڈ! وہ بھی صفر ریٹرن فائل کر کے قانون کا مذاق بنا رہی ہے، باقی بِنا سیلز ٹیکس، بِنا انکم ٹیکس، بِنا نگرانی کھلے عام زہرفروخت کر رہی ہیں۔ تین لاکھ پان کے کھوکھے روزانہ 450 کنٹینروں کے برابر چھالیہ صرف کراچی میں بیچ رہے ہیں، جبکہ پورے ملک میں تعداد 650 کنٹینر ماہانہ عبور کر چکی ہے۔

حیران کن جرم یہ کہ ضبط شدہ چھالیہ بھی تلف ہونے کے بجائے نیلام کر کے دوبارہ مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے ،قانون کہاں مر گیا؟ ماہرین صحت چیخ رہے ہیں کہ منہ کا سرطان، کینسر اور مہلک بیماریوں میں روز اضافہ ہو رہا ہے، مگر ادارے خاموش ہیں۔ سوال پھر وہی: کسٹمز خاموش کیوں؟ کارروائی رکی کیوں؟ اور مافیا اتنا طاقتور کیسے؟

ریاست اور اداروں کے سامنے سوالات ہیں کہ 650 کنٹینر ماہانہ کس اجازت سے سرحد پار کر رہے ہیں؟، 50 کنٹینر سرکاری اعداد و شمار، باقی 600 کس کھاتے میں؟،جعلی شدہ aflatoxin رپورٹس پر Department of Plant Protection جواب دہ کب ہوگا؟،ضبط شدہ چھالیہ تلف کرنے کے بجائے نیلام کس قانون کے تحت؟، سیل فیکٹریاں دوبارہ اسی پتے پر کیسے چل رہی ہیں؟،کسٹمز پریوینٹیو کے 30 کروڑ ماہانہ رشوت نیٹ ورک کا ماسٹر مائنڈ کون؟،ایف آئی اے کے مقدمات دفن کس کے حکم پر ہوئے؟، سندھ پولیس اور کسٹمز افسران کے خلاف کارروائی رکی کیوں؟،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)معیار کی خلاف ورزی پر ریاست خاموش کیوں؟
100 ارب سالانہ نقصان ،ذمہ داری آخر لے گا کون؟

جب قانون مجرم کے قدموں میں اور ریاستی ادارے مافیا کی جیب میں ہوں تو اسمگلنگ نہیں رکے گی صرف نرخ بڑھیں گے، جرم نہیں۔