ایف آئی اے نے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں جبکہ مئی 2019 سے اپریل 2020 کے دوران چھ کمپنیوں کو ٹیکس ریفنڈ میں 16 ارب کی مبینہ جعل سازی کا دعویٰ سامنے لایا جا رہا ہے۔ مذکورہ معاملہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں تین برس قبل سامنے آیا تھا اور ایف بی آر نے شبر زیدی پر لگائے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

واضح رہے کہ فروری 2022 کے اجلاس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ایف بی آر نے ان الزامات کو یکسر مسترد کردیا تھا اور اس وقت کی رپورٹ میں صاف کہا گیا تھا کہ شبر زیدی کے خلاف کسی غیرقانونی ریفنڈ کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ دو ماہ بعد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایف بی آر کی رپورٹ پر حتمی فیصلہ نہیں دیا اور فائل یوں ہی دبادی گئی تھی۔

اسی دوران ایف آئی اے میں مبینہ طور پر ان ہی الزامات کے ساتھ دیگر شکایات کی روشنی میں انکوائری رجسٹرڈ کی گئی ہے ۔ ایف آئی اے نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ایک برس سے زائد چیئرمین ایف بی آر رہنے والے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شبر زیدی کے خلاف تحقیقات میں ایف بی آر سے ریکارڈ طلب کیا ہے جبکہ شبر زیدی کی فرم سے متعلق بھی ریکارڈ مانگا گیا یے۔
یاد رہے عمران خان کی جانب سے شبر زیدی کو عہدے سے ہٹانے کے بعد قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے قریبی 6 کمپنیوں کو ریفنڈ کی مد میں 16 ارب کا فائدہ پہنچایا۔ کمیٹی نے ایف بی آر سے جواب مانگا تو فروری 2022 میں ایف بی آر کے ممبر اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ بادشاہ خان وزیر نے رپورٹ پیش کی تھی جس میں تمام الزامات کو بنیاد ہی سے مسترد کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق شبّر زیدی نے نہ کسی مبینہ کلائنٹ، سیمنٹ، بینکنگ، فرٹیلائزر یا فوڈ کمپنی کو غیرقانونی ریفنڈ دینے کی ہدایت کی اور نہ ہی ایف بی آر کے ریکارڈ میں کسی ایسی ہدایت کا کوئی ثبوت ملا تھا۔
یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ جن ریفنڈز کی کل رقم 16.2 ارب روپے ظاہر کی گئی، اصل میں صرف 12 ارب روپے جاری ہوئے، اور وہ بھی چیئرمین کے نہیں بلکہ متعلقہ کمشنرز کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اسی عرصے میں 71 ارب روپے کے ریفنڈز جاری ہوئے جن میں چھ ٹیکس دہندگان کے ریفنڈ محض 17.7 فیصد تھے۔
ایف بی آر نے رپورٹ میں واضح کیا کہ شبّر زیدی نے عہدہ سنبھالنے سے قبل اپنی چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرم سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ریفنڈ قواعد، روٹین پریکٹس اور نیک نیتی کے تحت جاری ہوئے، کسی قسم کی جانبداری ثابت نہیں ہوئی تھی۔
اس کے باوجود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بعد میں ہونے والے اجلاس میں اس پر فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا اور اب حالات یہ ہیں کہ سرد خانے کی نذر ہونے والی فائل دوبارہ کھول دی گئی ہے۔ سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا 16 ارب کی پرانی فائل میں حقیقت ہے یا یہ محض ایک نیا سیاسی اسکور کارڈ ہے؟ کون سچ بول رہا ہے ایف بی آر، پی اے سی یا ایف آئی اے جس نے حال ہی میں انکوائری شروع کی ہے۔
زرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے ریکارڈ موصول ہونے کے بعد سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو نوٹس کے زریعے طلب کرئے گی۔