Screenshot_2025_1027_144806

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ایک نیا خوف مسلط ہو چکا ہے، صنعتی علاقوں میں سرگرم ایک منظم فراڈ گینگ نے گزشتہ ایک برس کے دوران درجنوں ٹیکسٹائل ملوں اور 200 سے زائد کپڑے کے گودام مالکان کو آن لائن اسکیم یا فشنگ ، جعلی سرکاری احکامات اور بلیک میلنگ کے ذریعے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا چکا یے۔

یہ گینگ خود کو حساس اداروں کے افسر، وفاقی ایجنسیوں کے نمائندے اور ڈپٹی کمشنرز کا آدمی ظاہر کر کے کورنگی، لانڈھی اور سائٹ کی انڈسٹری پر خوف کی حکمرانی قائم کیے ہوئے ہے۔ گینگ نہ صرف فنشنگ (phishing) کے زریعے موبائل فون میں موجود فوٹو گیلری ،واٹس ایپ کو وہ پیغامات جو دوسری جانب سے آنے کے بعد آگے بھیجا جاتا ہے بلکہ فوٹو گیلری، کانٹیکٹس اور ای میل تک رسائی حاصل کر کے کاروباری شخصیات کو خاموش کرانے، خوف زدہ کرنے اور لوٹنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔

واضح رہے کہ فشنگ (phishing) ان لائن اسکیم کے لئے استعمال کئے جانے والا طریقہ واردات ہے جو وائی فائی ڈیوائس،موبائل فون ہاٹ اسپاٹ کے زریعے استعمال کر کے یا کاروبار مقاصد کے لئے بنائی گئی ان لائن ایپلیکیشن کی ہو آر ایل میں معمولی تبدیلی موبائل فون کی میموری میں موجود تصاویر ،ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ منظم گروہ میں اس نیٹ ورک سے منسلک افراد کا مل مالکان یا گودام مالکان سے تعارف حساس ادارے کا اہلکار بن کر کرواتے ہیں اور جب سامنے موجود شخص کو اسی کے موبائل فون میں موجود تصاویر یا دیگر چیزیں دکھائی جاتی ہیں اس کے بعد بلیک میلنگ کے زریعے کاروبار بھی حاصل کیا جاتا ہے اور رقم بھی طلب کی جاتی ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ یہ نیٹ ورک پہلے ڈپٹی کمشنر کے جعلی احکامات دکھا کر ٹیکسٹائل ملوں کی پارکنگ بند کرواتا ہے، کبھی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ذریعے پانی کی لائنیں کاٹ کر مل بند کرواتا ہے جبکہ کہیں مقامی تھانوں سے چوکیدار اور ڈرائیور گرفتار کروا کر دباؤ بڑھاتا ہے۔ پھر مافیا ایک فون کال پر پانی بحال کر کے، پارکنگ کھلوا کر اور ایف آئی آر واپس کروا کر اپنے ’’ریٹ‘‘ بتاتی ہےیہ پورا کھیل خوف، رسائی اور فروخت شدہ ریاستی مشینری پر کھڑا ہے۔

جب مل مالکان یا گودام مالکان کی جانب سے مزاحمت سامنے آئے تو منصوبہ نمبر 2 شروع ہوتا ہے ، یعنی موبائل کا ڈیٹا چوری کر کے بلیک میلنگ کے لئے مل مالکان کو ذاتی معلومات، موبائل فون میموری میں موجود تصاویر ویڈیو اور رابطہ نمبرز کے ساتھ ایسے کاروباری پیغامات یا ای میل تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو فاروڈ پیغامات ہوں اور پھر رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور مل مالکان کو دباؤ میں لایا جاتا ہے کہ مل میں موجود اکشن والا سامان ان ہی کو ان کی مرضی کے نرخ سے فروخت کیا جائے جس سے ایک بڑے کاروباری طبقے کو کھڈے لائن لگا۔ کے ہیں اور اسی زریعے سے یہ گروہ براہ راست ٹیکسٹائل کا کاروبار متاثر کر رہا ہے۔بعض کیسز میں بلیک میلنگ کے لیے شارع فیصل اور کینٹ کے بنگلوں کے سامنے تصاویر بنا کر بھیجے جاتے ہیں تاکہ تاثر دیا جا سکے کہ نیٹ ورک ’’بہت اوپر‘‘ تک جڑا ہوا ہے۔

یہ گینگ صرف پیسے نہیں لوٹ رہایہ ٹیکسٹائل کی سپلائی چین پر قبضہ کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کٹ پیس سے فیصل آباد تک روئی کی واپسی والے روایتی کاروباری سائیکل کو توڑ کر مارکیٹ کو اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش جاری ہے۔

کراچی کی انڈسٹری سوال پوچھ رہی ہےکہ آخر یہ نیٹ ورک کون چلا رہا ہے؟ کس کے اشارے پر پانی بند ہوتا ہے، تھانے متحرک ہوتے ہیں، اور فون کا ڈیٹا کمپرومائز ہوتا ہے؟ اور مل مالکان ہوں یا عام افراد جب وہ کسی آن لائن فراڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ اپنی شکایات نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے پاس جانے میں تاخیر کیوں کرتے ہیں ؟کیا شہریوں کو اسی طرح کی انوسٹی گیشن ایجنسی سے اعتبار اٹھ رہا ہے ؟

اگر حکومت اور ادارے نہ جاگے تو یہ مافیا  ٹیکسٹائل حب کو ایک خوف زدہ بلیک میل مارکیٹ بنا ڈالے گا۔