اربوں روپے کے میگا سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان ریفارمز اٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کے اندر موجود منظم سائبر کرمنل گینگ ریاستی اداروں سے بھی بڑا اور طاقتور ثابت ہونے لگا ، یہاں تک کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کو بھی ریکارڈ اور سسٹم تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ سنگین صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے حکم پر تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی تک کو بھی مکمل ریکارڈ نہ ملا ، سوال اب یہ ہے کہ ریاست فیصلے کرتی ہے یا مافیا؟


رپورٹ کے مطابق ریجنل ٹیکس آفس ون کراچی میں ایف آئی آر نمبر 1/2024 کی تحقیقات کے دوران 524 ارب روپے کا سیلز ٹیکس فراڈ بے نقاب ہوا۔ تفتیشی افسر نے شواہد کے ساتھ انکشاف کیا کہ یہ فراڈ پرال اور ایف بی آر کے اندر موجود ایک منظم سائبر نیٹ ورک نے کیا، جو ایک کھرب 62 ارب روپے کی بوگس انوائسسز کو سسٹم میں محض ایک لفظ کی تبدیلی، مختلف آئی پی ایڈریسز، موبائل نمبرز، ای میلز اور PIN/Password کی مبینہ چوری کے ذریعے اپ لوڈ کرتا رہا۔صرف یہی نہیں ، وفاقی ٹیکس محتسب نے بھی ایک سال پہلے کارروائی کا حکم دیا تھا مگر نتیجہ صفر نکلا۔ گویا کارروائی کا ہر دروازہ بند اور ہر راستہ کسی نہ کسی طاقتور ہاتھ نے روک رکھا ہے۔


ملک بھر کے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے)زونز میں اسی منظم سائبر گینگ کے خلاف متعدد درخواستیں دائر ہوئیں۔ انکوائری نمبرز بھی جاری ہوئے، تفتیشی افسر بھی لگے مگر کسی بھی انکوائری میں پرال یا ایف بی آر نے نہ سسٹم رسائی دی نہ ریکارڈ۔
یہ صورتِ حال اس ایک حقیقت پر مہر ثبت کرتی ہے کہ یہ ہیکنگ نہیں، اندر بیٹھے لوگوں کا کھیل ہے، جو سسٹم کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
مارچ 2024 میں M/s Metro Foot Wear کے نام پر فراڈ کا مقدمہ درج ہوا۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ مرکزی ملزم اویس بھٹہ پر کمپنی کا پاس ورڈ اور PIN استعمال کرنے کا الزام لگا،ملزم نے مؤقف اختیار کیا کہ کمپیوٹر درستگی پر دیا تھا، پاس ورڈ وہیں سے لیک ہو سکتا ہے۔تفتیش نے ثابت کیا کہ اصل فائلر اور فراڈ نیٹ ورک الگ الگ لوکیشن، الگ آئی پی، الگ ڈیجیٹل فنگر پرنٹ پر کام کر رہے تھے
23 اپریل 2024 کو Gravity Traders کے موبائل نمبر اور ای میلز کو مختلف آئی پیز سے تبدیل کیا گیا تاکہ اصل مالک سسٹم تک رسائی ہی نہ پا سکے۔ جب IP ٹریس کی گئی تو کراچی کے ایک شخص سید غضنفر علی نقوی تک پہنچی، جو اپنا کردار تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ صفا انٹرنیشنل نامی کمپنی ایک 80 سالہ خاتون کے نام پر رجسٹرڈ کی گئی،اسی سے 1.62 ٹریلین (کھرب 62 ارب) کی بوگس سپلائیز ظاہر کی گئیں،292 ارب سیلز ٹیکس + 232 ارب دیگر ٹیکس ظاہر کیے گئے اور مجموعی طور پر یہ فراڈ 524 ارب کا ہوگیا۔
Annexure-Cکے ذریعے داخل کی گئی یہ بوگس انٹریز سسٹم توڑ کر نہیں، اندر بیٹھ کر، مکمل رسائی کے ساتھ کی گئیں جو ناقابلِ تردید اشارہ ہے کہ نیٹ ورک پرال اور ایف بی آر کے اندر موجود ہے، باہر نہیں۔
اسی دوران Gravity Traders کے اصل مالک کی جانب سے جولائی 2023 تا جنوری 2024 تک NULL ریٹرنز باقاعدگی سے جمع ہوتی رہیں مگر 23 جنوری 2024 کو ایک مختلف آئی پی سے جعلی فائلنگ کی گئی، جو اس نیٹ ورک کا سب سے مضبوط ڈیجیٹل ثبوت ہے۔
مزید حیران کن پہلو یہ کہ اصل کمپنی کا مالک 1980 سے ٹیکس پریکٹس کرنے والا ایک معمر شخص ہے، جو سادہ زندگی اور کم آمدنی رکھتا ہے جس کے مقابلے میں کھربوں کا ڈیٹا اس کے نام پر چلتا رہا۔

دسمبر 2024 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر جے آئی ٹی بنائی گئی، جس کے کنوینر وفاقی وزیر مصدق ملک تھے اور TORs میں صاف درج تھا کہ بوگس انوائسسز،پرال کے کردار،سیلز ٹیکس فراڈ،سسٹم کی خامیاں اور ملوث افسران،سب کی 30 دن میں تحقیقی رپورٹ دی جائے۔تاہم آج تک JIT رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی۔
سائبر گینگ ریاستی نظام کے اندر بیٹھ کر سسٹم چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے،ریکارڈ تک رسائی روک دی گئی،وزیر اعظم کی JIT بے اثر رہی،نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی بے اختیار ثابت ہوئی524 ارب کا اسکینڈل دبانے کی کوشش جاری ہے
آخر میں سوال وہی ہے کہ کیا پاکستان میں ریاست مافیا کے مقابلے میں واقعی بے بس ہو چکی ہے؟ یا یہ خاموشی کسی بڑے سودے کا پیش خیمہ ہے؟