ایف آئی اے کراچی زون کو سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف درج مقدمے میں تاریخ ساز شرمندگی کا سامنا ہے۔ صرف 36 گھنٹوں کے اندر ہی ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے مقدمے کو “سی کلاس” کرنے کی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی یہ اقدام ادارے کے اندرونی نظام، تفتیشی عمل اور افسران کی اہلیت پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، مقدمے کے اندراج کے محض ڈیڑھ دن بعد ہی اسے ختم کرنے کی رپورٹ جمع کرانا اس بات کی علامت ہے کہ یا تو ایف آئی اے میں اعلیٰ سطح پر کوئی سازش رچی گئی یا پھر افسران کی کھلی نااہلی نے ادارے کو رسوائی سے دوچار کیا۔


29 اکتوبر شام 5 بجے ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے مقدمہ الزام نمبر 32/2025 درج کیا، جس میں سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، ایف بی آر حکام اور حبیب بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ کو نامزد کیا گیا۔ قانونی تقاضوں کے مطابق، مقدمے کے اندراج کے 48 گھنٹوں کے دوران اداروں کو ریکارڈ کے لیے لیٹر لکھے جانے اور ملزمان کی گرفتاری کے اقدامات ہونا تھے، مگر حیران کن طور پر صرف 36 گھنٹے کے اندر ہی جمعہ کی صبح اسپیشل کورٹ سینٹرل ون میں مقدمے کو سی کلاس کرنے کی رپورٹ جمع کرادی گئی جس سے عملی طور پر مقدمہ ختم کرنے کی سفارش کر دی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عدالت نے تاحال سی کلاس رپورٹ پر کوئی احکامات جاری نہیں کیے، مگر ایف آئی اے حکام نے جس برق رفتاری سے مقدمہ بند کرنے کی کوشش کی، وہ ایف آئی اے کے مروجہ طریقہ کار سے صریحاً انحراف ہے۔
ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق، ایف آئی اے کراچی زون نے مقدمہ نمبر 32/2025 منسوخ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس رول 1934 کے رول 24.7 کے تحت مقدمے کی منسوخی کی اجازت دی گئی، اور اعلیٰ حکام نے مقدمے کو “سی کلاس” میں شامل کرنے کی ہدایت جاری کی۔

مزید کہا گیا کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، ایف بی آر افسران اور ایچ بی ایل انتظامیہ کے نام مقدمے سے نکالنے کی منظوری دی گئی ہے۔ فیلڈ یونٹ کی سفارش پر ڈسچارج رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت دی گئی اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون کی منظوری سے ڈپٹی ڈائریکٹر کرائم سرفراز علی نے اس حکم نامے پر دستخط کیے۔
ایف آئی اے کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی مقدمے کو محض 48 گھنٹوں کے اندر ختم کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق، ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی منتظر مہدی 29 اکتوبر کو شبر زیدی کے خلاف مقدمے کی منظوری دینے کے بعد دو دن کی رخصت پر چلے گئے تھے، جبکہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے رفعت مختار راجہ بھی ان دنوں ملک سے باہر تھے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب دونوں اعلیٰ افسران دستیاب نہیں تھے، تو مقدمہ ختم کرنے کے احکامات کس نے جاری کیے؟
قانونی ماہرین کے مطابق، ایف آئی اے کراچی زون، اے ڈی لیگل اور اینٹی کرپشن سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی غفلت، نااہلی اور ممکنہ ملی بھگت نے ادارے کو تاریخی شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس ریفنڈ سے متعلق اس سے قبل بھی متعدد مقدمات ایف آئی اے میں درج ہو چکے ہیں اور آج بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، تو پھر اس ہائی پروفائل کیس کو اتنی جلد بازی میں کیوں ختم کیا گیا؟
مزید برآں، قانونی حلقوں کا مؤقف ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور حبیب بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ کو مقدمے میں براہ راست نامزد کرنا ہی غیر قانونی اقدام تھا۔
کیونکہ انکم ٹیکس ریفنڈ کی منظوری کا اختیار کمشنر سطح تک محدود ہوتا ہے، اور 2021 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں خود ایف بی آر حکام نے وضاحت دی تھی کہ چیئرمین ایف بی آر کا اس عمل سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔
ایسے میں حبیب بینک کی انتظامیہ کو بھی نامزد کرنا قانونی طور پر غیر منطقی اور نااہلی کا ثبوت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملہ بظاہر ادارے کے اندر سازش یا جان بوجھ کر کی گئی بدانتظامی لگتا ہے، تاکہ ایک جانب اگر کوئی اصل کردار موجود ہو تو اسے فائدہ پہنچے، اور دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر کراچی زون کو بدنام اور کمزور کیا جا سکے۔