امریکی شہری کی درخواست نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) ساوتھ زون کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ،لاہور اور اسلام آباد میں تعینات این سی سی آئی اے افسران کے خلاف مقدمات کے بعد کراچی کے مرکزی کرداروں کے خلاف مبینہ شواہد موصول ہوگئے ،امریکی شہری نے نئے تعینات ڈی جی این سی سی آئی اے کو مرچنٹ اکاوئنٹس میں غیر ملکی شہریوں کا ڈیٹا چوری کرنے کے لنکس فراہم کردئیے،متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکی اداروں کا نام استعمال کر کے غیر ملکی شہریوں کے اکاؤنٹس پر ڈاکہ ڈالا گیا،امریکی شہری نے وزارت خارجہ،امریکی ایمبیسی اور حساس اداروں کو علیحدہ علیحدہ تحریری شکایت کی ہے ، مزکورہ درخواست میں این سی سی آئی اے میں نئی اور پرانی چھپی کالی بھیڑیں سامنے آنے کا امکان ہے ،تحریری درخواست کے بعد سے این سی سی آئی اے میں متعدد افسران دفتر سے غیر حاضر ہونے لگے ہیں اور اپنے بچاؤ کے لئے رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے،درخواست پر شروع ہونے والی انکوائری کراچی میں قانونی آئی ٹی مراکز پر این سی سی آئی اے کے غیر قانونی اقدامات اور علیحدہ طریقہ کار کا پردہ فاش ہوسکتا ہے۔


نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) ساوتھ زون کے ڈائریکٹر عامر نواز اور حساس ادارے کے سابق افسر بریگیڈیئر (ر) عامر نوید کی مبینہ شراکت داری نے غیر ملکی شہریوں کا ڈیٹا چوری کرنے والے بین الاقوامی نیٹ ورک کو سرکاری تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ امریکی شہری کی تحریری درخواست نے کراچی میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے عالمی ڈیٹا اور مالی فراڈ نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا ہے۔


ذرائع کے مطابق این سی سی آئی اے کے قیام کے بعد غیر قانونی کال سینٹرز کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی سرپرستی میں اضافہ ہوا، اور حساس ڈیٹا کی چوری کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے ماہانہ بھتہ اور کاروباری معاہدوں کے انکشافات نے ادارے کی ساکھ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ این سی سی آئی اے کے بعض افسران نے قانونی کال سینٹرز اور آئی ٹی کاروبار کو غیر قانونی طور پر نشانہ بنایا، ان پر ڈیٹا چوری کے جھوٹے الزامات عائد کیے، اور بعد ازاں دھمکیوں اور تحریری ڈیلز کے ذریعے ماہانہ لاکھوں روپے وصول کیے۔
ایگزیکٹ اور برہان مرزا نیٹ ورک سے منسلک کال سینٹرز کے ساتھ علیحدہ علیحدہ آمدن کے معاہدے طے کیے گئے، جبکہ چھاپوں کے دوران ضبط شدہ غیر ملکی شہریوں کا ڈیٹا انہی کے اپنے کال سینٹرز میں استعمال کیا گیا۔
امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت اشفاق احمد نے تحریری شکایت میں بریگیڈیئر (ر) عامر نوید اور ان کے قریبی ساتھی شیراز پال پر مالی فراڈ، مرچنٹ اکاؤنٹس کے غلط استعمال اور ڈیٹا چوری کے سنگین الزامات عائد کیے۔
درخواست کے مطابق دونوں افسران نے کاروباری شراکت داری کے دوران 82,190 امریکی ڈالرز کی ٹرانزیکشنز اشفاق احمد کے نام پر کیں، مگر 6,900 ڈالرز کا بل ادا نہ کیا، جبکہ بعد میں 58,205 ڈالرز کے چارج بیک سامنے آئے جن سے ان کے کاروبار اور کریڈٹ اسکور کو شدید نقصان پہنچا۔
امریکی ریگولیٹرز نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو انہیں MATCH لسٹ (Mastercard Alert to Control High-risk Merchants) میں شامل کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے اہل نہیں رہیں گے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے الگ ہونے کے بعد این سی سی آئی اے کے بعض افسران کے اختیارات میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں ان کی مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔
مزید انکشاف ہوا ہے کہ کال سینٹرز سے ضبط شدہ ڈیٹا بعد ازاں انہی افسران کے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ نہ صرف انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA 2016) کی سنگین خلاف ورزی ہو گی بلکہ پبلک سروس ایکٹ کے تحت سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال کا قابلِ سزا جرم بھی ثابت ہوگا۔
ادھر، ایف آئی اے لاہور اور اسلام آباد میں این سی سی آئی اے افسران کے خلاف پہلے ہی علیحدہ تحقیقات جاری ہیں۔ حالیہ امریکی شکایت نے نئے ڈائریکٹر جنرل خرم علی کو سخت امتحان میں ڈال دیا ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ساوتھ زون کے ڈائریکٹر عامر نواز اور ان کی ٹیم کے خلاف باضابطہ انکوائری شروع کی جائے گی۔
ایف آئی اے لاہور اور اسلام آباد میں پہلے ہی این سی سی آئی اے افسران کے خلاف علیحدہ تحقیقات جاری ہیں۔ان تحقیقات میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے کئی پروجیکٹ افسران کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں جبکہ اس نیٹ ورک میں وہ افسران بھی شامل ہیں جو ایف آئی اے میں تعیناتی کے دوران سائبر کرائم ونگ کا حصہ رہے ہیں۔تاہم رواں ماہ امریکہ سے موصول ہونے والی ایک ای میل شکایت نے حال ہی میں تعینات ہونے والے این سی سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر جنرل کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔زرائع کا کہنا ہے کہ یہ ای میل سابق ڈائریکٹر جنرل این سی سی آئی اے کو بھی کی گئی تھی لیکن اس دوران این سی سی آئی اے لاہور کے افسران کے خلاف حساس اداروں نے کارروائی شروع کردی تھی اس لئے اس درخواست کو سابق ڈی جی کی جانب سے منظر عام پر آنے نہیں دیا گیا تھا اور اس درخواست میں جن افسران پر الزامات عائد ہوئے انہیں رازداری سے بتا دیا گیا تھا جس کے بعد سے ان افسران نے کارروائی سے بچنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر رکھی یے۔
اگر یہ شواہد درست ثابت ہو گئے تو یہ معاملہ نہ صرف پاکستان کی سائبر سکیورٹی انڈسٹری کے وقار کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔