جامعہ کراچی میں وائس چانسلر خالد عراقی کی من پسند طالبہ حورالعین کو نوازنے کے لیے ادارے کی ساکھ داؤ پر لگادی گئی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت شعبہ ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (ORIC) کو شخصی پسند و ناپسند کی بھینٹ چڑھا کر وائس چانسلر نے نہ صرف میرٹ کا قتل کیا بلکہ یونیورسٹی کی انتظامی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔


ذرائع کے مطابق وائس چانسلر نے نااہل طالبہ حورالعین کو محض ذاتی وابستگی کی بنیاد پر گریڈ 20 میں ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا، حالانکہ وہ دو برسوں سے اپنے ماتحت شعبے کو بہتر بنانے کے بجائے مسلسل تنزلی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

اکتوبر کے سینڈیکیٹ اجلاس کے دوران وائس چانسلر نے حورالعین کو مستقل کرنے کی کوشش کی، مگر سیکرٹری یونیورسٹی بورڈ ایجوکیشن نے واضح مخالفت کرتے ہوئے اسے خلافِ ضابطہ اقدام قرار دیا۔ وائس چانسلر نے نہ صرف ان اعتراضات کو نظرانداز کیا بلکہ سیکرٹری کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا۔

صورتحال اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب بدھ 11 نومبر کو وائس چانسلر کی منظوری سے حورالعین نے اکیڈمک کونسل کے اراکین کو ایجنڈا جاری کرنے کے بجائے جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم کا شناختی کارڈ، فیملی ڈیٹا، نکاح نامہ اور تعلیمی ریکارڈ ای میل کر دیا۔
یہ اقدام پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ثابت ہوا، مگر وائس چانسلر نے کارروائی کے بجائے افسوسناک طور پر اراکین کو کہا کہ “غلطی سمجھ کر معاف کر دیں۔”
ذرائع کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2025 میں ہونے والے سینڈیکیٹ اجلاس میں وائس چانسلر نے حورالعین کے شعبے کو “شاندار کارکردگی” کا حامل ظاہر کر کے انہیں گریڈ 20 میں براہِ راست ترقی دینے اور کنٹریکٹ میں دو برس کی توسیع دینے کی کوشش کی۔ تاہم یونیورسٹی بورڈ ایجوکیشن نے فیصلہ رد کر دیا۔
اجلاس کے اختتام پر مبینہ طور پر دستاویزات میں تبدیلی کر کے توسیع کی مدت بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی، جس کی تصدیق 24 نومبر کے اکیڈمک کونسل اجلاس میں متوقع ہے۔
جامعہ کراچی میں ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے قیام کا مقصد ریسرچ انڈسٹریز کو جامعہ سے منسلک کرنا ہے تاہم یہاں صرف انڈسٹریز کے ساتھ مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط اور زاتی تعلقات بنانے کے اور کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ،جامعہ کراچی کے اساتذہ نیشنل ریسرچ پروجیکٹ یونٹ (این آر پی یو) سے از خود ریسرچ حاصل کرتے ہیں از خود فنڈنگ کی کوششیں کرتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ برس میں جامعہ کراچی کے ایک طالب علم نے” پلانٹ بیسڈ پلاسٹک "کا کامیاب تجرب کیا جسے جامعہ کراچی کی ریسرچ کے نام پر پھیلایا جانا چائیے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور وہ طالب علم جامعہ کراچی سے پاس آؤٹ ہوگیا ۔ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کی ڈائریکٹر کی نااہلی کے باعث جامعہ کراچی دنیا بھر کی ریسرچ جامعات کے بجائے صرف ڈگری فراہم کرنے والا ایک اشارہ بن گئی ہے جس کی وجہ سے جامعہ کراچی میں داخلے کے لئے آنے والے طالب علموں کا رجحان ہر برس کم ہورہا ہے۔
یاد رہے کہ ORIC کا پورا بجٹ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے مختص ہوتا ہے، لیکن حورالعین کے دور میں یہ شعبہ مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا ہے۔
اساتذہ کو اپنی ریسرچ یا پراجیکٹ ڈیٹا جمع کرانے کے لیے آج بھی ای میل پر ذاتی معلومات بھیجنا پڑتی ہیں، کیونکہ حورالعین نے دو برس میں کوئی ڈیجیٹل سسٹم متعارف نہیں کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر شائستہ تبسم کے ذاتی و خاندانی کوائف ایجنڈے کے نام پر تمام اراکین کو بھیج دیے گئے ، ایک ایسا فعل جس نے جامعہ کراچی کی بدانتظامی کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اساتذہ نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر ریسرچ انوویشن کے نام پر کام صفر ہے، تو پھر وائس چانسلر خالد عراقی کس بنیاد پر حورالعین کو نوازنے پر تلے ہوئے ہیں؟
اندرونی ذرائع کے مطابق خالد عراقی کی جانب سے ہر غیر قانونی حکم نامے پر افسران پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، تاکہ حورالعین کو گریڈ 20 کی مستقل ڈائریکٹر بنایا جا سکے۔
جامعہ کراچی کے سینئر پروفیسرز نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائس چانسلر کی اقرباپروری نے ادارے کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کا دفتر جس کا مقصد عالمی سطح پر جامعہ کراچی کا تشخص بہتر بنانا تھا، آج ذاتی مفادات اور فیورز کی آماجگاہ بن چکا ہے۔