کراچی پورٹس پر پیدا ہونے والا فالکن آئی بحران محض تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند انتظامی بدعنوانی کا شاخسانہ ثابت ہو رہا ہے۔ذرائع کے مطابق پورٹ افسران اور چند بااثر بانڈڈ آپریٹرز کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ نے پورے ٹریکنگ نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔


فالکن آئی جو ملک بھر میں بانڈڈ کارگو کی مانیٹرنگ کی سب سے بڑی کمپنی کہی جاتی ہے، پچھلے کئی ہفتوں سے ڈیوائس انسٹالیشن، سرٹیفکیشن اور الیکٹرانک ادائیگی کے نظام میں جان بوجھ کر تعطل پیدا کر رہی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تعطل کے ذریعے کروڑوں روپے کے اسٹوریج چارجز اور غیر مصدقہ گیٹ پاسز کے ذریعے ایک غیر اعلانیہ مالی نیٹ ورک سرگرم ہے۔
اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ فالکن آئی کے ہزاروں ٹریکنگ ڈیوائسز ناکارہ یا غیر تصدیق شدہ ہیں جبکہ کئی گاڑیاں بغیر منظور شدہ کوڈز کے ٹرمینلز میں داخل کی جا رہی ہیں۔
حیرت انگیز طور پر، متعلقہ پورٹ حکام اور کسٹمز افسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ٹرمینل آپریٹرز نے تصدیق کی کہ فالکن آئی کی ٹیمیں دانستہ تاخیر سے ڈیوائس لگانے پہنچتی ہیں، جس کے باعث کنٹینرز کی کلیئرنس رک جاتی ہے، اور اس دوران اضافی اسٹوریج فیس کے نام پر بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کچھ بانڈڈ کیریئرز مخصوص افسران کی پوشیدہ منظوری سے بغیر تصدیق شدہ دستاویزات کے ٹرمینلز میں داخل ہوتے رہے، جس سے نہ صرف بندرگاہی نظم تباہ ہوا بلکہ سیکیورٹی خطرات میں بھی اضافہ ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران دراصل فالکن آئی اور بندرگاہی انتظامیہ کے درمیان پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ مفادات کے تصادم کا نتیجہ ہے۔ذرائع کے مطابق کئی شکایات کے باوجود وزارتِ تجارت اور کسٹمز انٹیلیجنس نے ابھی تک کسی باضابطہ انکوائری کا آغاز نہیں کیا۔
تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر اس “فالکن آئی کارگو اسکینڈل” کی آزادانہ تحقیقات نہ ہوئیں تو بندرگاہی نظام میں چھپی بدعنوانی کی جڑیں مزید مضبوط ہو جائیں گی، اور پاکستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا اعتماد بین الاقوامی سطح پر شدید متاثر ہوگا۔