سندھ کے طاقتور حلقوں نے رینجرز ہیڈکوارٹر کے ساتھ ایلنڈر روڈ پر واقع کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی اربوں روپے مالیت کی زمین کے الیکٹرک کو فروخت کرکے گویا سرکاری خزانے پر خود ہی شب خون مار دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے متعدد حکم ناموں کو ڈھال بنا کر اس ”فروخت“ کو قانونی رنگ تو دے دیا گیا، مگر عدالتی حکم کے برخلاف رقم پینشن اکاؤنٹ میں منتقل نہ ہوسکی اور پینشنرز کا بیک لاگ 13 ارب تک پہنچ گیا،قرارداد میں ظاہر کیا گیا کہ برقی تنصیبات پلاٹ پر موجود ہیں جبکہ وہ پلاٹ یہ نہیں ہیں،اوپن مارکیٹ میں نامور کمپنیوں کو چھوڑ کر غیر معروف کمپنی سے ویلیویشن لگوائی گئی ،
حیرت انگیز طور پر زمین کی قیمت کے ایم سی کے واجبات کے ساتھ ایڈجسٹ کرلی گئی، یعنی ایک ہاتھ دو، دوسرے سے لو۔



سٹی کونسل کی دستاویزات کے مطابق زمین کی فروخت پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے متفقہ قرارداد منظور کی اور یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن بھی کے الیکٹرک کے معاملے پر سربسجود ہے؟ یا یہ اپوزیشن کی وہ ناقابلِ معافی نااہلی ہے کہ ان کے علم میں آئے بغیر قرارداد پیش بھی ہوگئی اور چپ چاپ منظور بھی؟
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کے الیکٹرک کے معاملے پر حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی مکمل شریکِ جرم بن گئی ہو۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی سٹی کونسل میں حکومت و اپوزیشن کی مبینہ متفقہ قرارداد کے ذریعے اربوں روپے کی سرکاری اراضی کے الیکٹرک کو فروخت کی گئی، اوپن ٹینڈر تک نہیں کیا گیا۔اس قرارداد میں مبینہ طور پر سٹیل کونسل میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کو اندھیرے میں رکھا گیا اور اصل حقائق مخفی رکھے گئے جس سے حکومتی اراکین کی مجبوریاں تو سمجھ آتی ہیں اپوزیشن اراکین نے کہا فائدے حاصل کئے یہ اہم سوال ہے؟
قرارداد میں بس یہ لکھ دیا گیا کہ یہ زمین قیامِ پاکستان سے KESC کے زیرِ استعمال ہے، مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس عرصے میں کتنا کرایہ وصول ہوا اور KESC کی نجکاری کے بعد کیا ریٹ رکھا گیا۔
سب سے بڑھ کر سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی بھی کھلی خلاف ورزی کی گئی ، رقم پینشنرز کے سرکاری اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کے بجلی نادہندہ واجبات میں ایڈجسٹ کردی گئی۔
دستاویزات میں میونسپل کمشنر نے کہا کہ زمین پر قیام پاکستان سے برقی تنصیبات نصب ہیں، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مقام اصل میں کے الیکٹرک کی پارکنگ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
زمین کی مالیت کو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں جان بوجھ کر بڑھا کر ”کارکردگی“ ظاہر کی گئی، حقیقت میں پورا کھیل کے الیکٹرک کو نوازنے کے لیے رچا گیا۔
19 مئی کو پیش ہونے والے سٹی کونسل ایجنڈا نمبر 6 مد نمبر 1 میں تجویز کنندہ کرم اللہ وقاصی اور تصدیق کنندہ اسلم سموں نے قرارداد نمبر 124 میں بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کے الیکٹرک کے درمیان ایلنڈر روڈ ریلوے کوارٹر شیٹ نمبر RY-9 کی 5142 مربع گز زمین دو لاکھ 75 ہزار روپے فی مربع گز میں حل کرنے کی تجویز دی اور حیرت کی بات یہ کہ اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔




لینڈ ڈپارٹمنٹ نے اپنی یادداشت میں کہا کہ زمین پر قیام پاکستان سے KE/KESC/WAPDA کی تنصیبات ہیں جنہیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔تاہم زرائع نے تصدیق کی کہ جن پلاٹس کی زکر میونسپل کمشنر نے اپنے خط میں دیا ہے وہ پلاٹس ایلنڈر روڈ پر واقع ہیں لیکن ان پلاٹس پر کے ای ایس سی کا کے الیکٹرک کی انسٹالیشن نہیں ہیں جبکہ جن پلاٹس پر انسٹالیشن ہے وہ پلاٹس ایلنڈر روڈ کے عقب میں حسن علی روڈ پر واقع ہیں گوگل آمیج سے بھی اس کی تصدیق ممکن ہے۔کے ایم سی کی قرارداد کے مطابق زمین ریلوے کوارٹر کے علاقے میں پلاٹ نمبر 11/16، 11/17، 11/18 اور 11/21 سے متصل ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے CPLA/K-229/2019 میں ہدایات جاری کیں جس کے بعد 2019 میں کے ایم سی اور کے الیکٹرک نے 2 لاکھ روپے فی مربع گز کے نرخ طے کیے مگر سٹی کونسل تحلیل ہونے کے باعث منظوری نہ ہوسکی۔

2021 میں کے ایم سی نے ٹرائی اسٹار کنسلٹنٹ سے تخمینہ لگوایا جس نے قیمت 2 لاکھ 60 ہزار فی گز مقرر کی، کے الیکٹرک نے اسے بھی مسترد کردیا۔
2023 میں RBS Associate نے 2 لاکھ 75 ہزار روپے کا تخمینہ دیا اور حیرت انگیز طور پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں خصوصی طور پر ویلیویش کے لئے مستند اوپن مارکیٹ کی بڑی کمپنیوں کو چھوڑ کر ایک ایسی کمپنی جس کا مارکیٹ میں کوئی بڑا نام نہیں ہے RBS Associate سے اس اراضی کی ویلیویشن لگوائی گئی ،پہلے کے الیکٹرک نے اسے بھی ماننے سے انکار کرتے ہوئے 1959 کا معاہدہ دہرا دیا کہ اس وقت 42 روپے فی گز کے حساب سے 25 فیصد رقم جمع کرائی گئی تھی، لہٰذا اسی پر معاملہ طے کیا جائے،لیکن پھر اچانک مان گئی۔
آخر مذاکرات کے بعد کے ایم سی نے اعلان کیا کہ 1959 کا معاہدہ ختم ہوچکا، لہٰذا بات موجودہ تخمینے پر ہی ہوگی۔یوں 2 لاکھ 75 ہزار روپے فی مربع گز کے حساب سے ایک ارب 41 کروڑ 40 لاکھ 50 ہزار روپے کے عوض زمین کے الیکٹرک کو دے دی گئی۔
سب سے زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ حکومت ہی نہیں، اپوزیشن بھی ایک لفظ تک نہ بولی۔کسی نے نہ پوچھا کہ جس عدالتی حکم کا سہارا لیا گیا، اس پر کوئی عمل ہوا بھی کہ نہیں؟،کسی نے نہ سوال اٹھایا کہ پینشنرز کے 13 ارب کے بیک لاگ کے باوجود رقم ان کے اکاؤنٹ میں کیوں نہ گئی؟،کسی نے نہیں پوچھا کہ کے الیکٹرک سے برسوں میں کتنا کرایہ وصول ہوا؟،اوپن ٹینڈر کیوں نہ کیا گیا؟
اور آخر یہ مہربانی صرف کے الیکٹرک پر ہی کیوں؟
یہ پورا معاملہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کراچی کی قیمتی سرکاری اراضی کو ایک منظم طریقے سے،خاموشی سے اور مبینہ گٹھ جوڑ کے ذریعے کے الیکٹرک کے قدموں میں ڈال دیا گیا اور سٹی کونسل کی متفقہ قرارداد نے اس ”سہولت کاری“ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔