Screenshot_2025_1129_150347

وزیر اعظم پاکستان نے طبی شعبوں کے تنازعات سے نمٹنے کے لئے میڈیکل ٹریبونل کی تشکیل دے دی،ٹریبونل غفلت برتنے والوں کو سات برس کی سزا بھی سنا۔سکتا ہے ،ڈاکٹروں اور طبی عملے نے تشویش کا اظہار کردیا ۔

وزارت قانون و انصاف کے احکامات کے مطابق وزیراعظم نے میڈیکل ٹربیونل اسلام آباد کے دو ممبرز ٹیکنیکل تعینات کیے ہیں، ڈاکٹر محمد امجد اور ڈاکٹر منہاج السراج کو ممبر ٹیکنیکل MP-II مقرر کیا گیا، دونوں ممبران کا تقرر تین سال کیلئے کیا گیا ہے۔

حکومت نے طبی تنازعات کے فوری حل کے لیے خصوصی عدالتی فورم قائم کر دیا ہے۔پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ میڈیکل ٹریبونل ایکٹ 2020 کے تحت ملک میں پہلی بار صحت اور طبی شعبے سے متعلق تنازعات کے فوری اور مؤثر حل کے لیے خصوصی عدالتی ٹریبونل قائم کر دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد ہیلتھ سیکٹر کے بڑھتے ہوئے مسائل کو تیز رفتار قانونی طریقہ کار کے ذریعے نمٹانا اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

میڈیکل اور ہیلتھ سیکٹر میں پیش آنے والے تنازعات و شکایات کے تیز رفتار عدالتی فیصلوں کے لیے خصوصی فورم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

ٹریبونل کو صحت اور طبی عمل سے متعلق جرائم، شکایات اور انتظامی تنازعات کی سماعت کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

ٹریبونل کو بھاری جرمانے اور سات سال تک قید کی سزا دینے کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔

ہائی کورٹس میں اپیل کا حق محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ کو حتمی اپیلٹ فورم قرار دیا گیا ہے، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

ٹریبونل اپنی کارروائی اس وقت بھی جاری رکھ سکتا ہے جب کوئی رکن غیر حاضر ہو یا ٹریبونل کی تشکیل میں تبدیلی آ جائے، اور وہ پہلے سے ریکارڈ شدہ شواہد کو بنیاد بنا سکتا ہے۔

ٹریبونل کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم ہے، تاہم چیئرمین کی منظوری سے ملک کے کسی بھی شہر میں اجلاس منعقد کیا جا سکتا ہے۔

طبی ماہرین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کچھ ڈاکٹر تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قانون طبی عملے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور صحت کے شعبے میں عدم اعتماد کو جنم دے سکتا ہے۔طبی ماہرین نے سات سال قید جیسی سزاؤں کو غیر مناسب اور غیر ضروری سخت قرار دیا جا رہا ہے اور ہائی کورٹ میں اپیل کا دائرہ محدود کرنے پر قانونی ماہرین اور ہیلتھ ورکرز نے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔