کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں سالانہ ترقیاتی فنڈز (ADP) کے بے دریغ اور بے لگام استعمال کا ایک اور سنگین اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔ سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز کے زیر انتظام سرفراز رفیقی شہید اسپتال کے لیے صرف سات لاکھ روپے مالیت کا سامان ریکارڈ میں اڑھائی کروڑ سے زائد کے منصوبوں میں 52 لاکھ روپے ظاہر کرکے سرکاری خزانے سے نکلوالیا گیا، جبکہ حیران کن طور پر سامان تاحال اسپتال میں موجود ہی نہیں ہے۔


ذرائع کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ADP فنڈز کو میونسپل کمشنر افضال زیدی اور سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر مہوش مٹھانی کے دستخط سے منظور کیا گیا، مگر فنڈز کے اجرا کا طریقہ نہ صرف غیر قانونی تھا بلکہ غیر اخلاقی حدوں کو بھی چھوتا نظر آتا ہے۔ مریضوں کی سہولیات، طبی آلات اور اسپتال کی ضروریات کا نام استعمال کرکے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، اور اس پورے عمل پر چھایا پردہ چاک ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔

سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز نے گزشتہ مالی سال کے دوران ADP فنڈز کے تحت سرفراز رفیقی شہید اسپتال کے لیے

Diather Model Presentation TC
Operation Medical Table – Model Expert D1 (China)
کی خریداری کا منصوبہ تیار کیا۔ خریداری کا "قرعہ” ہمیشہ کی طرح Bio Medical Star Enterprises کے نام نکلا۔
تاہم لوکل مارکیٹ میں مذکورہ آلات کی حقیقی قیمت 6 سے 7 لاکھ روپے سے زائد نہیں۔ اس کے باوجود ADP فنڈز میں دونوں اشیاء کی قیمت 52 لاکھ روپے سے زیادہ ظاہر کی گئی اور مالی سال کے اختتام سے قبل پوری رقم نکلوا لی گئی۔اس کے باوجود سامان آج تک سرفراز رفیقی شہید اسپتال تک نہیں پہنچاجو بدعنوانی کی ایک ناقابل تردید نشانی ہے۔
اس معاملے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جاوید اقبال سے دریافت کیا گیا کہ آیا ADP فنڈز سے منظور شدہ سامان اسپتال کو موصول ہوا ہے؟ تو انہوں نے معنی خیز اور دبے ہوئے لہجے میں بتایا:مجھے سمیت تمام عملے کو اس موضوع پر بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
آپ سوال کرنا چاہتے ہیں تو میونسپل کمشنر یا سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز سے کریں۔
ڈاکٹر ظفر کے اس جواب نے اس پورے معاملے پر چھائے دباؤ، خاموشی اور مبینہ پردہ پوشی کو مزید واضح کردیا ہے۔
اینول۔ڈیلولمنٹ پروگرام فنڈز کے تحت دکھائی جانے والی یہ "خریداری” نہ صرف مشکوک ہے بلکہ یہ تاثر بھی مضبوط کرتی ہے کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میڈیکل شعبے میں قوم کی اندھے دھند نکاسی،جعلی خریداریوں کی بار بار تکرار،ریکارڈ میں غیر معمولی تضاد اور سامان کی عدم موجودگی جیسے امور ادارے کے اندر موجود منظم بدعنوانی کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ایک اسپتال کا نہیں بلکہ KMC میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔