Screenshot_2025_1204_223248

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا کراچی میں غیر قانونی کال سینٹر پر چھاپہ، کال ایجنٹس کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ کال سینٹرز سے لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور ڈیوائسسز ضبط کرلی گئیں۔ تاہم چھاپے کے دوران اصل مالک کو حراست میں نہیں لیا گیا، جس کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا این سی سی آئی اے اپنی پرانی روش برقرار رکھے ہوئے ہے۔

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کراچی کی ٹیم نے ڈیڑھ ماہ بعد کال سینٹرز کے خلاف کارروائی کی ہے، تاہم کارروائی میں اختیار کیے گئے تاخیری حربوں نے معاملہ مشکوک بنانا شروع کردیا ہے۔ کارروائی میں زیرِ حراست کال ایجنٹس کے خلاف کارروائی کے 24 گھنٹے بعد مقدمے کے اندراج کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو عملی طور پر غیر معمولی تاخیر تصور کی جارہی ہے۔

این سی سی آئی اے کی ٹیم نے بدھ کی شب خیابانِ بخآری کمرشل کی لین 12 میں آفس نمبر 301 میں کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی کال سینٹرز میں کام کرنے والے ایک درجن کے لگ بھگ کالنگ ایجنٹس کو حراست میں لیا اور آفس میں موجود ڈیجیٹل ڈیوائسسز، لیپ ٹاپ ضبط کرکے اپنے ہمراہ لے گئی۔ تاہم جمعرات کی رات گئے تک اس کارروائی پر مقدمے کا اندراج نہیں ہوسکا تھا، جس نے کارروائی کے شفاف ہونے پر مزید سوالات بڑھا دیے۔

واضح رہے کہ این سی سی آئی اے میں ایف آئی اے اور پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران ماضی میں غیر قانونی کال سینٹرز کے خلاف کارروائی کے دوران مبینہ طور پر معاملات طے کرنے، تاخیری حربے استعمال کرنے اور اصل مالکان سے ڈیلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ کسی بھی کال سینٹر میں کارروائی کے بعد 24 سے 48 گھنٹے تک مقدمے کے اندراج سے گریز کیا جاتا تھا، اور اسی دوران کال سینٹرز کے اصل مالک سے ڈیلنگ کے لئے راستہ بنایا جاتا تھا۔ ڈیلنگ کے بعد وہ کال سینٹرز براہ راست این سی سی آئی اے کی سرپرستی میں آ جاتے تھے۔

اسی طرح کارروائی کے دوران جو ڈیٹا ملتا تھا وہ علیحدہ کسی دوسرے کال سینٹر میں غیر قانونی طریقے سے استعمال کروا دیا جاتا تھا جبکہ متاثرہ شخص ایسے معاملات غیر قانونی ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اعلیٰ حلقوں میں شکایت درج کرانے سے گریز کرتا تھا۔ اس پس منظر کے باعث حالیہ کارروائی میں بھی صرف کالنگ ایجنٹس کی گرفتاری نے پھر سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن کی اس حالیہ کارروائی میں اصل مالک کی گرفتاری نہ ہونا اور مقدمے کے اندراج میں تاخیر اس آپریشن کو مزید متنازع بنا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حال ہی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کراچی این سی سی آئی اے کے عہدے پر آنے والے پولیس سروسز گروپ کے افسر طارق نواز اس معاملے پر کیا کارروائی کرتے ہیں، اور آیا یہ اقدام شفافیت کی طرف جائے گا یا ماضی کی طرح صرف کال ایجنٹس ہی قربانی کا بکرا بنیں گے۔