
فیس لیس کسٹمز یا فیس لیس کرپشن؟” پاکستان کسٹمز میں تاریخ کا ایک اور مالیاتی و انتظامی اسکینڈل سر اٹھا رہا ہے، جس میں کسٹمز کے پرنسپل اپریزر عمران اسلم گل بھی پراسرار طور پر لاپتہ ہو چکے ہیں۔
3 جولائی کی صبح، عمران اسلم گل اپنے ڈرائیور کے ہمراہ دفتر کے لیے روانہ ہوئے، مگر وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ ان کے بیٹے کی طرف سے درج کرائی گئی درخواست کے مطابق انھیں ممکنہ طور پر اسمگلنگ مافیا نے اغوا کیا۔ لیکن کہانی صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسی بھیانک فائل کا پہلا صفحہ ہے، جس میں بدعنوانی، ملی بھگت، اور طاقتور ہاتھوں کی پرچھائیاں نمایاں ہیں۔
ذرائع کے مطابق عمران گل اور ان کے کچھ اعلیٰ سطحی رفقاء پر الزام ہے کہ انہوں نے "سیلولر ایسیٹیٹ ٹو” نامی حساس درآمدی کیمیکل کی درآمد کو "ایکرلک ٹو” ظاہر کر کے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے کو تقریباً 7 ارب روپے کا نقصان پہنچایا، اور مبینہ طور پر 1.5 ارب روپے کی رشوت وصول کی۔
یہ پورا دھندہ "فیس لیس کسٹمز سسٹم” کے پردے میں انجام پایا، جس کا مقصد تو کرپشن سے نجات تھا، مگر یہی نظام بدعنوانی کا نیا چہرہ بن گیا۔ پانچ مشکوک کنسائنمنٹس کی کلیئرنس، جن میں سے تین پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی، اس ملی بھگت کی قلعی کھول رہی ہیں۔
دلچسپ طور پر، عمران گل ایک ایف آئی آر میں شکایت کنندہ اور دوسری میں تفتیشی افسر بتائے جا رہے ہیں جو کہ مفادات کے کھلے ٹکراؤ کا ثبوت ہے۔
کیا عمران گل کی گمشدگی کسی بڑی ڈیل کی خاموشی خریدنے کی کوشش ہے؟
کیا کسٹمز اور ایف بی آر کی اعلیٰ بیوروکریسی اس مرتبہ بھی بچ نکلے گی؟
کیا "فیس لیس” نظام کو واقعی شفاف بنایا جا سکتا ہے یا یہ صرف فیس سیونگ کا بہانہ ہے؟
کیا یہ معاملہ صرف ٹیکس چوری کا ہے یا ڈرگ مافیا کی سہولت کاری جیسا سنگین پہلو بھی اس میں چھپا ہے؟
پاکستان کے محکمانہ نظام میں کرپشن کا یہ تازہ باب نہ صرف اربوں روپے کی لوٹ مار کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ اس میں شامل گمشدگی، بلیک میلنگ اور بااثر مافیا کے کردار کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ اگر اس بار بھی تفتیش گریڈ 16 تک محدود رہی، تو یہ کیس بھی دیگر "غیر حل شدہ اسکینڈلز” کی الماری میں دفن ہو جائے گا۔