Screenshot_2025_0709_042744

کیا جامعہ کراچی میں مالی بے ضابطگیاں معمول بن چکی ہیں؟ وزیراعلیٰ سندھ کی انکوائری ٹیم نے تحقیقات شروع کردیں!
شیخ الجامعہ خالد عراقی بیرون ملک دورے پرروانہ ہوگئے۔
جامعہ کراچی جو برسوں سے علم، تحقیق کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے، آج کل ایسی خبریں دے رہی ہے جنہیں پڑھ کر ہر طالب علم، استاد اور محب تعلیم شہری کا دل دھڑک اٹھتا ہے۔ کیا واقعی سندھ کی سب سے بڑی جامعی درسگاہ میں مالی و انتظامی بدعنوانی ایک معمول بن چکی ہے؟ کیا جو ادارہ روشن مستقبل تراشتا تھا، وہ آج خود بے یقینی، بے ضابطگی اور بے خبری کا شکار ہے؟

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر جامعہ کراچی میں مالی و انتظامی بے ضابطگیوں پر فارنزک فنانشل اور پرفارمنس آڈٹ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ انکوائری کمیٹی قائم ہو چکی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ انکوائری محض خانہ پُری ہے یا واقعی احتساب کی ابتدا؟

وزیراعلیٰ آفس کے حکم کے مطابق مالی سال 2021-22 سے 2024-25 تک تمام مالی سرگرمیوں کی مکمل چھان بین کی جائے گی۔ لیکن اتنے حساس اور اہم نوعیت کے مالی ریکارڈ اب تک کیوں منظرِ عام پر نہ آ سکے؟
کیا تمام بجٹ فنانس کمیٹی، سنڈیکیٹ اور سینیٹ سے باضابطہ طور پر منظور شدہ تھے؟
بین الاقوامی دوروں، ہوٹلنگ، اور تفریحی اخراجات کا اختیار کن ہاتھوں میں تھا؟ اور اس کا جواز کیا تھا؟

جامعہ کو حکومتِ سندھ، وفاق، اوقاف، اور وصیتوں کے ذریعے مالی امداد فراہم ہوتی ہے، مگرکیا یہ رقمیں یونیورسٹی کے تمام اکاؤنٹس میں منتقل ہوئیں یا کہیں اور؟
کیا ان رقوم کا استعمال پروکیورمنٹ قوانین کے مطابق ہوا؟

2021 کے بعد سے جاری ترقیاتی منصوبے بھی شک کے دائرے میں ہیں۔

کیا فنڈز شفاف طریقے سے خرچ ہوئے؟
کیا ترقیاتی کاموں میں ٹینڈر، بولی اور قانونی طریقہ کار اپنایا گیا؟
کیا ان منصوبوں پر کوئی آزاد یا سرکاری آڈٹ ہوا؟ یا یہ سب صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہے؟

جامعہ میں 2021 سے اب تک کی گئی تدریسی و غیر تدریسی تقرریاں بھی مشکوک قرار دی جا رہی ہیں۔

کیا تمام تقرریاں اشتہارات، سلیکشن بورڈ اور سنڈیکیٹ کی منظوری سے ہوئیں؟
کیا کچھ تقرریاں وائس چانسلر کے "خصوصی اختیارات” کے تحت کی گئیں؟
کیا یہ اقدامات ہائر ایجوکیشن کمیشن اور جامعہ کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی نہیں؟

فیس معافی اسکیم: وقت کا تقاضا یا مالی بےقاعدگی پر پردہ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے؟.رجسٹرار کی جانب سے 2012 سے 2023 تک کے نادہندہ طلبہ کے لیے اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں ہزاروں طلبہ کی فیس معاف ہونے کا امکان ہے۔

کیا یہ اسکیم سینیٹ یا سنڈیکیٹ سے منظور شدہ ہے؟
اس رعایت کا بوجھ کس مد سے اٹھایا جائے گا؟
کیا یہ اقدام محض اندرونی بدانتظامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش تو نہیں؟

انکوائری کمیٹی کو کہا گیا ہے کہ وہ تمام ذمہ دار افسران کی نشاندہی کرے، جن میں وائس چانسلر،پرو وائس چانسلر،رجسٹرار،ڈائریکٹر فنانس،کنٹرولر امتحانات،چیف اکاؤنٹنٹ،ریذیڈنٹ آڈیٹر شامل ہیں۔


کیا یہ افسران اپنی پوزیشنز کے غلط استعمال میں ملوث پائے جائیں گے؟
کیا ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی یا سب کچھ ایک بار پھر "فائلوں” کی نذر ہو جائے گا؟

اگر یہ تمام الزامات درست ثابت ہوتے ہیں، تو سوال صرف مالی بدعنوانی کا نہیں، بلکہ ادارے کے وقار، طلبہ کے مستقبل اور ملکی تعلیمی ڈھانچے کی ساکھ کا ہے۔

کیا پاکستان کی اعلیٰ جامعات بھی "انتظامی مافیا” کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہیں؟
کیا حکومت وقت ان اداروں کو بچانے کا عزم رکھتی ہے، یا صرف سیاسی بیان بازی پر اکتفا کرے گی؟

اب فیصلہ وقت کرے گا کہ قانون جیتتا ہے یا تعلقات؟
ادارہ محفوظ ہوتا ہے یا مفاد؟
علم باقی رہتا ہے یا اسکینڈل ہی اسکینڈل منظر پر رہتا ہے؟