Screenshot_2025_0708_194802

پاکستان کسٹمز نے سندھ کے سسٹم سے منسلک فارما کمپنی کو مالی فائدہ دینے کے لئے قومی خزانے کو دو ارب روپے کا نقصان پہنچا دیا ،کسٹمز کی ملی بھگت سے 42 کمپنیوں کے کاروبار کو شدید دھچکا لگا ،

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ آرگنائزیشن کا تفصیلی فیصلہ آنے اور ہیلتھ کئیر ڈیوائس ایسوسیشن کے یک طرفہ کردار پر 42 کمپنیوں کے احتجاج کے بعد پاکستان کسٹمز ائیر پورٹ کلکٹریٹس نے معاملہ بورڈ کو ارسال کردیا ،

ڈائریکٹوریٹ کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن نے تحریری درخواست پر شروع ہونے والی انکوائری میں 32 کروڑ کی ٹیکس ڈیوٹی چوری کی نشاندہی کی تو اسے تحقیقات سے روک دیا گیا ،

42 کمپنیوں کا معاشی قتل، قومی خزانے کو اربوں کا نقصان، اور حورا فارما کا بے لگام کھیل کیا اب بھی جاری ہے؟

پاکستان کسٹمز کے سسٹم میں بیٹھے چند بااثر عناصر نے مبینہ طور پر سندھ سے منسلک ایک مخصوص کمپنی حورا فارما کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسی راہ ہموار کی کہ قومی خزانہ 2 ارب روپے سے محروم ہوگیا اور 42 جائز کمپنیوں کا کاروبار بری طرح متاثر ہو گیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کسے بچایا جا رہا ہے؟

جب ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلیجنس نے 32 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کی نشاندہی کی تو اچانک تحقیقات کیوں روک دی گئیں؟

کیا تحقیقاتی ادارے صرف فائلیں بند کرنے کے لیے ہیں یا مجرموں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہیں؟

کیا واقعی سرجیکل سیوچرز جیسی اشیاء کو جان بوجھ کر کسٹمز ٹیرف 9938 میں کلیئر کرایا گیا، جو کہ اس شے سے سراسر غیر متعلق ہے؟

جب 42 کمپنیاں 30061090 کوڈ کے تحت 10 سے 20 فیصد ڈیوٹی دے رہی تھیں، تو حورا فارما کو زیرو ڈیوٹی کیسے ملی؟

ایسوسی ایشن کی چھتری ، تحفظ یا سہولت کاری کا راستہ ہے؟

ہیلتھ کئیر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ سیوچرز "ڈسپوزیبل” آئٹمز ہیں؟

کیا یہ وضاحت "غلط بیانی” یا "مفاد پرستانہ تشریح” کے زمرے میں نہیں آتی؟

اور کیا یہ ہیلتھ ڈیوائسز ایسوسیشن آف پاکستان کے میمورنڈم آف ایسوسی ایشن کی خلاف ورزی نہیں؟

ڈاکٹر ظفر ہاشمی، ایسوسی ایشن کے نمائندے یا حورا فارما کے محافظ اب تک ہیں؟

کیا یہ سچ ہے کہ ڈاکٹر ظفر ہاشمی ہیلتھ ڈیوائسز ایسوسیشن آف پاکستان کے نمائندے بھی ہیں اور حورا فارما میں ایک بڑے عہدے پر بھی فائز ہیں؟

اگر ہاں، تو کیا یہ مفادات کا واضح ٹکراؤ (Conflict of Interest) نہیں؟

کیا کوئی شخص ایک ہی وقت میں اپنے ذاتی تجارتی مفاد اور اجتماعی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتا ہے؟

سیاسی آشیر باد یا رشوت کا کھیل کیا اب بھی جاری ہے.؟

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حورا فارما کو کویڈ-19 کے دوران سندھ حکومت سے ایڈوانس ٹینڈرز ملے اور اس کے بعد ہی کمپنی کی قسمت بدل گئی۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟

کیا موجودہ کسٹمز کلیئرنس میں "اسپیڈ منی” یعنی رشوت کا کوئی کردار ہے؟

اور اگر ایسا ہے تو، اعلیٰ حکام اب تک خاموش کیوں ہیں؟

42 کمپنیوں کے احتجاج کے باوجود کسٹمز بورڈ اب تک فیصلہ کیوں نہیں سنا سکا؟

ایئرپورٹ کلکٹریٹ کے اعلیٰ افسران میڈیا سے بات کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں؟

کیا عوام کا حق نہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ کس نے قومی خزانے کو لوٹا اور کس نے اس میں سہولت فراہم کی؟

عدالتی اور انتظامی اداروں سے سوال ہے کہ ایف بی آر ،کسٹم، نیب، ایف آئی اے، وزارت تجارت اور وزارت خزانہ کہاں ہیں؟

کیا یہ وقت نہیں کہ مفادات کے اس گٹھ جوڑ کو توڑا جائے اور قومی دولت کو چوری ہونے سے روکا جائے؟

یہ صرف سیوچرز کا معاملہ نہیں، یہ نظام کی شریانوں میں اترے زہر کی کہانی ہے۔

کیا ہم ان سوالات کے جواب حاصل کر پائیں گے؟ یا یہ اسکینڈل بھی چند فائلوں اور خاموش ملاقاتوں کی نذر ہو جائے گا۔؟

یاد رہے کہ حورا فارما کے مالکان کویڈ 19 سے پہلے کراچی کی ادویات فروخت کرنے والی مارکیٹ میں لیبارٹری کٹ کی فروخت کا کام کرتے تھے تاہم کویڈ 19 کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے کمپنی مالکان کو مبینہ طور پر ایڈوانس رقم کے زریعے ٹینڈر فراہم کئے جانے لگے۔

جس کے بعد اس کمپنی پر سندھ میں موجود سسٹم کا آشیر باد اور مضبوط ہوگیا اور اسی آشیرباد کے زریعے سرجیکل سیوچرز کی امپورٹ میں کلیئرنس کے دوران جعل سازی کو ہیلتھ ڈیوائسسز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کلکٹریٹ آف کسٹم ائیر پورٹس کے اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے فائدہ اٹھاتے رہے اور 42 کمپنیوں کے احتجاج کے بعد ایک ماہ سے کام رکا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر حورا فارما کو اب بھی مستقل مالی فائدہ پہنچانے کے لئے خلاف ضابطہ طریقہ کار کو مستقل استعمال کیا جارہاہے۔

اس ضمن میں تحقیقات کی جانب سے پہلے کلکٹریٹ آف کسٹم ائیر پورٹ عدیم خان سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی عدم موجودگی میں ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز ہیڈکواٹر کلکٹریٹ آف ائیر پورٹس رضوان محمود کا کہنا تھا کہ معاملہ بورڈ میں ہے اور وہ مزید کسی سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں ۔