Screenshot_2025_0709_042642

 

جامعہ کراچی میں برطرف کنٹرولر کی بحالی کی کوشش،کیا اختیارات کی جنگ قانون کی صراحت پر حاوی ہو رہی ہے؟،جامعہ کراچی میں "اصل کنٹرول” کس کے پاس ہے؟ عدالتی حکم، سیاسی دباؤ اور خودمختاری کی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

جامعہ کراچی میں امتحانات کے سابق کنٹرولر ڈاکٹر ظفر حسین کی بعد از ریٹائرمنٹ کنٹریکٹ پر تقرری اور پھر اس کی منسوخی کا معاملہ ایک نئے قانونی و انتظامی تنازعے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تقرری اور اس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے برہمی کے اظہار اور کنٹریکٹ ختم کرنے کے احکامات کے باوجود، ڈاکٹر ظفر حسین کی جانب سے عدالتی حکم کے ذریعے اپنی پوزیشن بحال رکھنے کی کوششوں نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ محض ایک شخص کی ملازمت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ آئینی اختیارات، خود مختار اداروں کی حدود اور حکومتی نگرانی جیسے بنیادی نکات سے جڑا ایک اہم مقدمہ بن چکا ہے۔

ڈاکٹر ظفر حسین 2011 میں محکمہ تعلیم سے ڈیپوٹیشن پر جامعہ کراچی آئے اور 2023 میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد وائس چانسلر کی سفارش پر پہلے چھ ماہ اور پھر جامعہ کی سنڈیکیٹ کے فیصلے کے تحت دو سال کے لیے کنٹریکٹ پر تعینات کیے گئے۔تاہم، وزیر اعلیٰ سندھ نے اس تعیناتی پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کنٹریکٹ ختم کر دیا اور جامعہ میں مبینہ مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی تفتیش کے لیے انسپکشن کمیٹی تشکیل دی۔

ڈاکٹر ظفر حسین نے اپنی برطرفی کے خلاف سول جج ایسٹ کی عدالت میں پٹیشن دائر کی، لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو فریق نہیں بنایا، بلکہ جامعہ کراچی کو ہی مخالف فریق قرار دیا۔ عدالت نے صرف یہ حکم دیا کہ جامعہ کراچی انتظامیہ ان کا موقف سنے، تاہم وزیر اعلیٰ کے احکامات کو معطل نہیں کیا گیا۔

قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ بنیادی سوالات اور آئینی نکات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قانونی ماہرین کی نظر میں اس مقدمے نے کئی اصولی سوالات کو جنم دیا ہے کہ کیا ایک خود مختار ادارہ صوبائی حکومت کے کنٹرولنگ اتھارٹی کے احکامات کو نظر انداز کر سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق “یونیورسٹی ایکٹ 2024” کے تحت وزیر اعلیٰ سندھ بطور کنٹرولنگ اتھارٹی نہ صرف وائس چانسلر بلکہ کنٹرولر جیسے افسران کو بھی برطرف کرنے کا قانونی اختیار رکھتے ہیں۔

کیا کسی افسر کی تعیناتی اور برطرفی میں سنڈیکیٹ کو وزیر اعلیٰ کے برابر یا بالا سمجھا جا سکتا ہے؟
آئینی طور پر سنڈیکیٹ محض سفارشات دینے کا مجاز ہے، تاہم اختتامی منظوری اور احکامات کا اختیار وزیر اعلیٰ کو حاصل ہے۔

درخواست گزار نے وزیر اعلیٰ کو فریق کیوں نہیں بنایا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا قانونی حربہ ہے تاکہ وزیر اعلیٰ کے احکامات کو براہ راست چیلنج کیے بغیر عدالت کو کنفیوز کیا جا سکے۔

کیا وائس چانسلر اس عمل میں غیر جانبدار ہیں؟
ماہرین کے مطابق عدالتی کارروائی میں جامعہ کا رویہ اور وکلا کی حکمت عملی اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ برطرف کنٹرولر کو درپردہ وائس چانسلر اور بعض بااثر عناصر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر خود مختار ادارہ حکومتِ سندھ کے اختیارات کو نظرانداز کر کے اپنی راہ چلے گا تو کیا یہ آئینی توازن کے منافی نہیں؟ کیا خود مختاری کا مطلب حکومتی نگرانی اور جوابدہی سے مکمل آزادی ہے؟

ایسے حالات میں انسپکشن کمیٹی کی حیثیت، رپورٹ اور اس پر عملدرآمد بھی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں "اصل فیصلے” اب بھی ڈاکٹر ظفر حسین کی مرضی سے ہو رہے ہیں جبکہ موجودہ کنٹرولر محض نمائشی کردار ادا کر رہے ہیں۔

حکومتِ سندھ کے لیے ایک چیلنج اور اب یہ صورتحال اب وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے ایک امتحان بن چکی ہے۔ کیا وہ اپنے اختیارات کے مؤثر استعمال سے ادارہ جاتی نظم بحال کریں گے یا پھر ایک جامعہ میں پائے جانے والے مبینہ اختیاراتی گٹھ جوڑ کے سامنے خاموش رہیں گے؟

جامعہ یا ریاست؟ برطرف کنٹرولر کی بحالی نے سندھ حکومت اور تعلیمی ادارے کو آمنے سامنے کر دیا ہے،اب معاملہ صرف جامعہ کراچی کا نہیں، بلکہ پورے اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے میں گورننس، شفافیت اور آئینی بالادستی کی سمت ایک سنگین اشارہ ہے۔