Screenshot_2025_0709_042744

کراچی میں 200 سے زائد اسلحہ ڈیلرز کے لائسنس منسوخ کرنے کا فیصلہ، حساس اداروں کی رپورٹ پر ہنگامی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کراچی میں جہاں پہلے ہی لسانی ، فرقہ وارانہ اور جرائم پیشہ گروہ کی سرگرمیاں ریاستی اداروں کے لئے چیلنج ہیں وہاں ایسے افراد کو اسلحہ لائسنس جاری کرنا جن کی سیکورٹی کلئیرنس ہی مشکوک ہو دراصل ایک ریاستی نظام کی ناکامی ہے۔یہ بدعنوانی کا معاملہ نہیں قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس میں سیکورٹی ادارے دانستہ یا نادانستہ طور پر سہولت کار بنے خاص کر ان ڈیلرز کے جنہوں نے بھارت کے بھی دورے کیے اور ان کی فائلیں جلدی چلانے کے لئے ریٹ کو بڑھایا گیا۔

حساس اداروں کی خفیہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد صوبائی وزارت داخلہ نے کراچی میں 200 سے زائد اسلحہ ڈیلرز کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں، جن میں ان کے لائسنس منسوخ کرنے کا انتباہ دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ڈیلرز 2021 سے 2024 کے دوران مبینہ طور پر نامکمل سیکیورٹی کلیئرنس کے باوجود لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

قانون کے مطابق پاکستان میں اسلحہ فروخت کرنے کے لیے لائسنس حاصل کرنے سے قبل درج ذیل اداروں کی مشترکہ تصدیق لازمی ہے کہ پولیس کا کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)،ملٹری انٹیلیجنس (ایم ائی)،متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کرتا ہے۔

تاہم خفیہ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2021 سے 2024 کے درمیان سینکڑوں اسلحہ ڈیلرز کو اس ضابطے کے برخلاف صرف سی ٹی ڈی سے کلیئرنس دلوا کر لائسنس جاری کیے گئے۔ بعض کیسز میں تو ملٹری انٹیلیجنس کی رپورٹ کو دانستہ طور پر مدہم یا غائب کر دیا گیا۔

 

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لائسنس حاصل کرنے والے کچھ افراد نے لائسنس سے قبل بھارت کے دورے بھی کیے تھے، جو بظاہر خطرناک سیکیورٹی خدشات کو جنم دیتا ہے۔ ان افراد کی مکمل تصدیق نہ ہونے کے باوجود انہیں اسلحہ بیچنے کی اجازت دے دی گئی، جس سے قومی سلامتی شدید متاثر ہو سکتی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لائسنس کے لیے جمع کرائے گئے تصدیقی کوائف کی فائلیں اندرونی افسران کی معاونت سے جلدی منظور کی گئیں۔ ان فائلوں کی قیمت ابتدائی طور پر 1.5 لاکھ سے 2.5 لاکھ روپے تھی، تاہم جن ڈیلرز کے کوائف نامکمل تھے، ان سے 5 سے 15 لاکھ روپے تک رشوت لے کر منظوری دلوائی گئی۔

حکومتی سطح پر اس اسکینڈل کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر وزارت داخلہ اور کائونٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)میں تعینات کچھ افسران کو شامل تفتیش کیا گیا ہے، جنہوں نے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تصدیقی مراحل کو نظر انداز کیا۔

حساس اداروں کی رائے میں اسلحہ لائسنس کے عمل میں کی گئی کوتاہی اور بدعنوانی نہ صرف قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ قومی سلامتی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد کو اسلحہ کی فروخت کی اجازت دینا جن کے بیرون ملک روابط مشکوک ہوں، ریاستی اداروں کے لیے باعث تشویش ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام لائسنس کی ازسرِ نو جانچ پڑتال کی جائے۔تمام مشکوک لائسنس فوری طور پر معطل کیے جائیں۔ ملوث افسران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ اسلحہ لائسنسنگ کا نظام ڈیجیٹل اور شفاف بنایا جائے۔ قومی سلامتی کے اداروں کو اس عمل میں براہ راست شامل کیا جائے۔

کراچی جیسے حساس شہر میں اسلحہ لائسنس کا غلط استعمال صرف ایک قانونی یا انتظامی کوتاہی نہیں، بلکہ یہ ایک سنگین ریاستی کمزوری کی عکاسی ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری اور مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو اس کے نتائج نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ قومی سلامتی پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔حکومت اور ریاستی ادارے واقعی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تو صرف چند افسران کو معطل کرنا کافی نہیں ہوگا اس عمل کی خود احتسابی لازم ہے اور اسلحہ کے غلط استعمال سے ہونے والی ممکنہ تباہی روکی جائے۔