Screenshot_2025_0719_165923

کراچی کی سڑکوں پر ایک اور سرکاری جعلسازی کی قلعی کھل گئی،ایف بی آر ریجنل ٹیکس آفس ون کراچی سے منسلک ایک اعلیٰ افسر کی گاڑی، جو نہ صرف سرکاری نمبر پلیٹ کی حامل نکلی بلکہ جعلی بھی ثابت ہوئی، ساوتھ زون پولیس کے ہاتھ لگ گئی۔ مگر چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کارروائی کے بعد سب سے پہلے "غائب” ہونے والا کوئی اور نہیں، بلکہ وہی افسر تھا جس کی گاڑی تھی، اور جو سارا دن دفتر میں سرکاری کاموں میں مصروف پایا جاتا ہے۔

گاڑی نمبر GS-0219 نمبر پلیٹ سرکاری تھی مگر جعلی نکلی یے۔
آرام باغ تھانے کی پولیس اور سیف سٹی پروجیکٹ کے اسٹاف نے مشترکہ کارروائی کے دوران سوزوکی اے وی پی گاڑی کو پکڑا تو اندازہ ہوا کہ نمبر پلیٹ تو سرکاری ہے، مگر اصلی نہیں یے، ذرائع کے مطابق گاڑی ایف بی آر کے ایک افسر کے زیر استعمال تھی اور جیسے ہی کارروائی کی خبر دفتر پہنچی، مذکورہ افسر ہوا میں تحلیل ہو گیا، گویا کراچی کی نمی نے اسے جذب کر لیا ہو۔

گاڑی کا ڈرائیور رفیق ولد ایوب پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ افسر نے خود ہدایت دی کہ رفیق ہی جرم "مان” لے، باقی سب ہم دیکھ لیں گے۔ نتیجہ یہ رہا کہ رفیق گرفتار، گاڑی ضبط، اور اصل کردار نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

سرکاری گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹ کیوں؟۔ایف بی آر کے افسر نے خود کو کیوں چھپایا؟۔ڈرائیور کو اعتراف جرم پر مجبور کرنا کہاں کا انصاف ہے؟۔کیا ایف بی آر کے افسران قانون سے بالاتر ہو چکے ہیں؟

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ طاقتور جب چاہے قانون کو چکمہ دے سکتا ہے، چاہے وہ جعلی نمبر پلیٹ ہو یا فرضی اعتراف جرم۔ سوال یہ ہے کہ کیا رفیق جیسے عام افراد ہمیشہ ایسے ہی طاقتوروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے۔؟