Screenshot_2025_0708_194802

بیگیج و گفٹ اسکیم کے پردے میں اربوں کی لگژری گاڑیوں کی بے نامی درآمد کا انکشاف

ایف بی آر کی بڑی کارروائی، سینکڑوں گاڑیاں، درجنوں کلیئرنگ ایجنٹس اور مبینہ سرکاری ملی بھگت بے نقاب ہوگئی۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے پرسنل بیگیج، گفٹ اسکیم اور ٹرانسفر آف ریذیڈنس (TR) اسکیم کے تحت درآمد کی گئی لگژری گاڑیوں کی بے نامی ٹرانزیکشنز کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ سات سالوں کے دوران کلیئر کی جانے والی ہزاروں گاڑیوں کا ریکارڈ کھنگالا جا رہا ہے، جب کہ 30 سے زائد کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

ایف بی آر کی دستاویزات کے مطابق ان کلیئرنگ ایجنٹس پر الزام ہے کہ انہوں نے بیگیج اور گفٹ اسکیم کی آڑ میں منظم دھاندلی کے ذریعے ہزاروں لگژری گاڑیاں کلیئر کروائیں۔ یہ اسکیم، جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی تھی، اس کا غلط فائدہ پاکستان میں موجود سرمایہ دار طبقے نے اٹھایا۔

ذرائع کے مطابق یہ افراد مزدور طبقے کے نام پر گاڑیاں منگوا کر ان کی آڑ میں کروڑوں روپے کا منافع کماتے رہے، جب کہ اصل مالکان اور خریداروں کی شناخت دانستہ طور پر چھپائی گئی۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اس گھپلے میں بعض کسٹمز افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں، جنہوں نے فروری 2018 سے مئی 2025 کے درمیان منظم ملی بھگت کے ذریعے ہزاروں گاڑیوں کی کلیئرنس کروائیں۔ ایف بی آر نے اس پوری مدت کے دوران درآمد کی گئی گاڑیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ نومبر 2024 میں معروف کلیئرنگ ایجنسیز میسرز ایروسیز ٹرانزٹ ایجنسی اور میسرز نورانی ٹریڈنگ نے میزان بینک کے ایک ملازم کی ملی بھگت سے جعلی پروسیڈ ریالائزیشن سرٹیفکیٹس (PRCs) تیار کر کے 52 سے زائد لگژری گاڑیاں کلیئر کروائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس کو مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت دے کر دبا دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تمام کارروائی وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے پرسنل بیگیج، گفٹ اسکیم اور TR اسکیم کے غلط استعمال اور بیرون ملک پاکستانیوں کے پاسپورٹ کے ناجائز استعمال پر سخت ایکشن لینے کی ہدایت دی تھی۔

ایف بی آر نے جاری کردہ نوٹسز میں واضح کیا ہے کہ کلیئرنگ ایجنٹس اور دیگر ملوث افراد کے خلاف بے نامی ایکٹ 2017 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ ادارے نے متاثرہ گاڑیوں کے اصل مالکان، استعمال کنندگان، قومی شناختی کارڈ نمبرز، بینک اسٹیٹمنٹس سمیت مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

یاد رہے کہ 2019 میں امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترمیم کرتے ہوئے یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ بیگیج، گفٹ یا TR اسکیم کے تحت منگوائی گئی گاڑیوں کی ڈیوٹی و ٹیکسز کی ادائیگی بیرون ملک سے آنے والی غیر ملکی کرنسی سے ہی ممکن ہو، جس کے لیے بینک سے PRC لازمی قرار دیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود مذکورہ اسکینڈل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مربوط کرپشن اور سسٹم کی کمزوریوں نے اس اصلاحات کو بھی غیر مؤثر کر دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے