
جامعہ کراچی کا ادارہ جاتی بغاوت؟ وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات پس پشت ڈال کر متنازعہ کنٹرولر کی خاموش سے بحالی کردی گئی۔
جامعہ کراچی میں انتظامی معاملات ایک بار پھر بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ ریٹائرڈ کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر ظفر حسین کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے مبہم فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے خاموشی سے دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے، جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے واضح احکامات کو عملاً نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق پیر 27 جولائی کو جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے بغیر کسی سرکاری اعلامیے کے قائم مقام کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر باسط انصاری کو عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر ظفر حسین کو دوبارہ اس عہدے پر تعینات کر دیا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ظفر ستمبر 2023 میں ریٹائر ہو چکے ہیں اور اس وقت کنٹریکٹ پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
اس سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر ڈاکٹر ظفر کو عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور ساتھ ہی جامعہ کراچی کے مالی و انتظامی معاملات کی نگرانی کے لیے ایک انسپکشن کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔ تاہم اطلاعات کے مطابق نہ تو اس کمیٹی نے کوئی تحریری رپورٹ مرتب کی، اور نہ ہی تحقیقات کا آغاز کیا۔ یہ صورت حال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ جامعہ انتظامیہ اور انسپکشن کمیٹی کے درمیان پس پردہ معاملات طے پا چکے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر نے اپنی برطرفی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، لیکن فریق کے طور پر صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کو شامل نہیں کیا۔ عدالت نے محض یہ ہدایت دی کہ درخواست گزار کو سنا جائے، تاہم جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے اس معمولی ہدایت کو "حکم امتناعی” قرار دیتے ہوئے بحالی کا جواز بنا لیا۔
جب رجسٹرار جامعہ کراچی، ڈاکٹر عمران صدیقی سے اس بارے میں وضاحت طلب کی گئی کہ آیا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے یا وزیر اعلیٰ کو اعتماد میں لیا گیا ہے، تو ان کا جواب تھا کہ جب آپ آفس تشریف لائیں گے تو سوالات کے جوابات دیے جائیں گے۔ جامعہ کے انتظامی معاملات ہم خود جانتے ہیں کہ کیسے چلانے ہیں۔بعد ازاں انہوں نے رابطہ منقطع کر دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ظفر کے برطرف کیے جانے کے باوجود، امتحانات کے حساس شعبوں—جیسا کہ ٹیبیولیشن اور کونفیڈینشل کا کنٹرول مبینہ طور پر انہی کے ہاتھ میں رہا، جب کہ قائم مقام کنٹرولر ڈاکٹر باسط انصاری کو ان شعبہ جات تک رسائی نہیں دی گئی۔
قانونی ماہرین اس صورت حال کو آئینی اور انتظامی نقطہ نظر سے نہایت تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق "یونیورسٹی ایکٹ 2024” کے تحت وزیر اعلیٰ سندھ بطور کنٹرولنگ اتھارٹی، وائس چانسلر سمیت کنٹرولر امتحانات جیسے کلیدی افسران کی تقرری یا برطرفی کا قانونی اختیار رکھتے ہیں۔ سنڈیکیٹ کا کردار محض سفارشاتی ہے، حتمی منظوری اور حکم نافذ کرنے کا اختیار صرف وزیر اعلیٰ کو حاصل ہے۔
کیا ایک خودمختار ادارہ حکومتی اختیارات کو پس پشت ڈال سکتا ہے؟۔کیا جامعہ کراچی میں اختیاراتی گٹھ جوڑ آئینی توازن کو پامال کر رہا ہے؟۔کیا انسپکشن کمیٹی کی خاموشی بدنیتی پر مبنی ہے یا نااہلی کا ثبوت ہے؟۔یہ بحران صرف ایک فرد کی تقرری یا برطرفی کا معاملہ نہیں، بلکہ ادارہ جاتی نظم، حکومتی رٹ اور آئینی توازن کا امتحان ہے۔ اب یہ وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے ایک واضح چیلنج بن چکا ہے۔
کیا وہ اپنے آئینی اختیارات کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے جامعہ میں شفافیت اور قانون کی حکمرانی بحال کریں گے، یا پھر مبینہ اندرونی گٹھ جوڑ کے سامنے خاموشی اختیار کریں گے؟