Screenshot_2025_0708_194802

پاکستان میں سولر پینلز کی درآمدات کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی تحقیقات پر کسٹمز ایڈجیوڈیکیشن کلکٹریٹ نے 13 جعلی درآمدی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں منی لانڈرنگ میں ملوث قرار دیا ہے اور ان پر مجموعی طور پر ایک کھرب 11 ارب روپے کے جرمانے عائد کیے ہیں۔

یہ فیصلہ ڈپٹی کلکٹر ایڈجیوڈیکیشن ڈاکٹر ارم زہرہ کی سربراہی میں سنایا گیا، جس میں انکشاف ہوا کہ جعلی کمپنیوں نے سولر پینلز کی درآمد ظاہر کر کے ملک سے ایک کھرب 20 ارب روپے بیرونِ ملک منتقل کیے جبکہ ان کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس میں ایک کھرب 40 ارب روپے کی مشکوک رقوم جمع ہوئیں، جن میں سے 45 ارب روپے نقدی کی صورت میں بینکوں میں جمع کرائے گئے۔

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ان 13 کمپنیوں کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں تھا، یہ صرف کاغذی دستاویزات میں رجسٹرڈ تھیں۔ ان کمپنیوں نے سیلز ٹیکس گوشواروں میں 85 ارب روپے کی جعلی مقامی فروخت ظاہر کی، جس کے لیے فرضی خریداروں کے نام استعمال کیے گئے۔

ایڈجیوڈیکیشن کلکٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے کے مطابق مختلف کمپنیوں پر درج ذیل جرمانے عائد کیے گئےمیسرز برائٹ اسٹار بزنس سلوشن، پشاور: 53 ارب روپے،میسرز مون لائٹ ٹریڈرز (ایس ایم سی)، پشاور: 21 ارب روپے،میسرز رائل زون پرائیویٹ لمیٹڈ: 16 ارب روپے،میسرز اسکائی لنکرز ٹریڈنگ کمپنی: 8 ارب 60 کروڑ روپے،میسرز سولر سائیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ 7 ارب 70 کروڑ روپے دیگر کمپنیوں پر مجموعی طور پر: 25 ارب 70 کروڑ روپے عائد کئے گئے،ملزمان کی غیر حاضری اور مزید جرمانے متوقع ہیں۔

تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ منی لانڈرنگ میں ملوث 45 افراد نے نہ تو اپنا مؤقف پیش کیا اور نہ ہی کیس کی پیروی کی، جس پر ان افراد پر چار کروڑ 50 لاکھ روپے کے اضافی جرمانے بھی عائد کیے گئے۔کنسائنمنٹس ضبط، نیلامی سے آمدنی متوقع ہے۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ میسرز سولر سائیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے 327 کنٹینرز پر مشتمل سولر پینلز کراچی کی مختلف بندرگاہوں پر موجود ہیں، جنہیں کسٹمز حکام نے ضبط کر لیا ہے۔ ان کی نیلامی سے حکومت کو ایک ارب 50 کروڑ روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ اسکینڈل پاکستان میں سولر پینل درآمدات کے شعبے میں موجود شفافیت کے فقدان اور منی لانڈرنگ کے پیچیدہ نیٹ ورک کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ فیصلہ ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن مستقل نگرانی، قانونی کارروائی اور بینکنگ چینلز کی سخت نگرانی کے بغیر اس نوعیت کے واقعات کا سدباب ممکن نہیں۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر اور دیگر متعلقہ ادارے اس اسکینڈل میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کے خلاف مزید قانونی کارروائی اور تحقیقات کی تیاری کر رہے ہیں، تاکہ اس فراڈ کا مکمل نیٹ ورک بے نقاب کیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے