Screenshot_2025_0807_220552

ایف بی آر میں اصلاحات یا اختیارات کی جنگ؟ چیئرمین کی غیر موجودگی میں بڑے پیمانے پر تبادلے، کئی سوالات جنم لینے لگے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں انتظامی سطح پر جاری تبدیلیوں نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کی غیر موجودگی میں پاکستان کسٹمز سروس کے گریڈ 19 سے 22 تک کے 38 افسران کے تبادلوں و تقرریوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جسے ماہرین اصلاحاتی عمل سے زیادہ اختیارات کے خفیہ کھیل کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

رواں ہفتے ایف بی آر کے اہم شعبوں ان لینڈ ریونیو اور پاکستان کسٹمز میں مجموعی طور پر 300 سے زائد اعلیٰ افسران کے تبادلے کیے جا چکے ہیں۔ تاہم ان تبدیلیوں کی منظوری کس سطح پر ہوئی اور اصل اختیار کس کے پاس ہے، یہ تاحال ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

ان تبدیلیوں میں سب سے نمایاں اقدام رباب سکندر کا لاہور سے اسلام آباد تبادلہ ہے، جہاں انہیں ڈائریکٹوریٹ جنرل رسک مینجمنٹ میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ رباب سکندر کو آئندہ دنوں میں ایف بی آر کا چیئرپرسن مقرر کیے جانے کا قوی امکان ہے۔ اس پیش رفت کو اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

دوسری جانب حالیہ برس میں تخلیق کی گئی ممبر ہیڈکوارٹر کی اہم پوسٹ پر تعینات یعقوب ماکو کو مزید اختیارات دیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پوسٹ کلئیرنس آڈٹ کا اضافی چارج بھی سونپ دیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کار اسے ایک طاقتور بیوروکریٹک بلاک کی تشکیل سے تعبیر کر رہے ہیں۔

ایف بی آر میں گذشتہ چند برسوں سے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اصلاحات کا دباؤ موجود ہے، خاص طور پر ٹیکس نیٹ بڑھانے اور کرپشن پر قابو پانے کے حوالے سے۔ لیکن حالیہ غیر معمولی تبادلوں کو بعض حلقے اصلاحات کے بجائے بااختیار افسران کی کھینچا تانی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

ان تمام اقدامات کے باوجود سرکاری طور پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تقرریاں و تبادلے کس پالیسی یا اصلاحاتی روڈ میپ کا حصہ ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کی چھٹی کے دوران ان اہم فیصلوں کا ہونا نہ صرف روایتی عمل سے ہٹ کر ہے بلکہ اسے ادارے کے اندرونی نظم و نسق پر سوالیہ نشان بھی سمجھا جا رہا ہے۔

فی الوقت ایف بی آر کی اندرونی انتظامیہ میں تبدیلیوں کا یہ سلسلہ ایک اہم موڑ پر ہے۔ اگرچہ ان اقدامات کو اصلاحات کے لبادے میں پیش کیا جا رہا ہے، لیکن ان کے اطلاق کا طریقہ، شفافیت کی کمی، اور اختیارات کے غیر واضح استعمال نے ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھا دیے ہیں۔