
جامعہ کراچی کیلئے “محبت بھرا سوالنامہ” اصل بے ضابطگیوں پر خاموشی، انتظامیہ کیلئے کلئیرنس کی راہ ہموار!
وزیرِ اعلیٰ سندھ کی انسپکشن اینڈ انکوائریز ٹیم نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو تین صفحات پر مشتمل سوالنامہ ارسال کیا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس میں وہ تمام نازک اور مالیاتی سوالات شامل نہیں کیے گئے جو اصل حقائق سامنے لا سکتے تھے۔ ماہرین نے اسے "محبت بھرا خط” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقصد صرف انتظامیہ کو کلئیر کرنا ہے تو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ کام کر کے کمیٹی بھی تحلیل کر دی جائے تاکہ قومی خزانے پر اضافی بوجھ نہ پڑے۔
سوالنامے میں جامعہ کی قیادت کا وژن، تعلیمی معیار، مالی پالیسی، وسائل کے استعمال، اسٹیک ہولڈرز سے تعلقات اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جیسے عمومی سوالات رکھے گئے، مگر انسپکشن ٹیم نے بجلی کے میٹرز کی کیٹیگری میں تبدیلی، کینٹین ٹینڈر کی شفافیت، من پسند ترقیوں، آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی بے ضابطگیوں، اور امتحانی فیس کی تصدیق جیسے اہم اور سنجیدہ معاملات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
چار کروڑ ماہانہ نقصان پر کوئی سوال نہیں کیا گیا کیوں؟،کینٹین، پٹرول پمپ اور دیگر لیز شدہ مقامات پر کمرشل بجلی میٹرز کو انڈسٹریل کیٹیگری میں بدلنے سے جامعہ ہر ماہ تقریباً چار کروڑ روپے زائد بل ادا کر رہی ہے، جبکہ ان جگہوں سے حاصل ہونے والا کرایہ محض دو لاکھ روپے ہے — لیکن اس سنگین مسئلے پر سوالنامہ میں ایک لفظ بھی نہیں۔
کینٹین ٹینڈر میں ابتدائی بولی زیادہ، موجودہ کرایہ انتہائی کم — سوال نہیں۔؟اسٹاف ٹاؤن کے قریب دکانیں برسوں سے بغیر میٹر — خاموشی۔ترقیوں میں یونین اور گروپ بندی کا کردار نظرانداز،امتحانی فارم، فیس تصدیق، اور غیر مصدقہ ادائیگیوں کا ریکارڈ، کوئی پوچھ گچھ نہیں۔
سابق تحقیقاتی افسران کے مطابق یہ سوالنامہ ایک رسمی کارروائی سے زیادہ موجودہ انتظامیہ کو کلیئرنس دینے کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے، اور حساس معاملات پر دانستہ خاموشی شکوک کو مزید گہرا کر رہی ہے۔