Screenshot_2025_0904_230246

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت پاکستان کسٹمز نے سپریم کورٹ، وفاقی ٹیکس محتسب اور صدرِ پاکستان کے واضح فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے گلگت کے شہری محمد اقبال کو 90 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی سے 15 برس تک محروم رکھا۔ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ جا پہنچا جہاں شہری نے کسٹمز حکام کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر کردی۔ عدالت عظمیٰ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری ریونیو ڈویژن، کلکٹر کسٹمز اسلام آباد اور دیگر اعلیٰ افسران کو 5 ستمبر بروز جمعہ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم سنا دیا ہے۔

درخواست گزار محمد اقبال نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ کسٹمز حکام نے اس کا سامان غیر قانونی طور پر ضبط کیا اور بدنیتی کے ساتھ وفاقی ٹیکس محتسب، صدرِ پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا۔

اقبال کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ وہ 90 کروڑ 50 لاکھ روپے کا حقدار ہے، مگر کسٹمز حکام نے محض 35 لاکھ 18 ہزار روپے ادا کرکے باقی رقم ہڑپ کرلی۔ اس طرزِ عمل کو درخواست میں اختیارات کے ناجائز استعمال، شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدالتی فیصلوں سے کھلی بغاوت قرار دیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ اس نے معاملے کو سرسری طور پر نمٹا کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے کسٹمز حکام کو فائدہ پہنچایا۔ محمد اقبال نے سوال اٹھایا ہے:
"جب عدالتیں، وفاقی ٹیکس محتسب اور صدرِ پاکستان سب میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں تو پھر انصاف کہاں ہے؟”

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس صرف ایک شہری کے حق کی جنگ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی نااہلی، بدنیتی اور عدالتی حکم عدولی کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اپیل منظور کرلی تو یہ فیصلہ کسٹمز حکام کے خلاف ایک تاریخی نظیر قائم کرے گا اور تمام وفاقی اداروں کے لیے وارننگ تصور ہوگا کہ عدالتی فیصلوں سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا۔