ایف آئی اے جیسے حساس قومی ادارے میں ایسی رٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل کے احکامات بھی بے اثر ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے، وزارت داخلہ کی پالیسی، اور ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز کے نوٹیفکیشن سب کچھ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایک عام سب انسپکٹر کس کے بل بوتے پر پورے ادارے کو یرغمال بنا سکتا ہے؟


ایف آئی اے میں سندھ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آئے کئی افسران 5 سال کی قانونی مدت گزرنے کے باوجود سات سات برس سے کرسیوں پر براجمان ہیں۔ نہ ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار راجہ کے دستخط شدہ احکامات پر عمل ہوا، نہ زونل ڈائریکٹرز کے خط و کتابت کا کوئی نتیجہ نکلا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان افسران کے خلاف سنگین ریکارڈ، کیسز خراب کرنے اور حساس انکوائریاں دبا دینے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں لیکن ادارہ ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت تک نہیں کرتا۔
3 اکتوبر 2024 کو سب انسپکٹر نصر اللہ کو واپسی کا حکم جاری ہوا۔ کاغذوں پر وہ فیصلہ آج بھی موجود ہے، مگر عملی طور پر افسر صاحب بدستور ایف آئی اے میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح انسپکٹر شاہد حسین کا بھی 19 اگست 2025 کو واپس اپنے محکمے یعنی سندھ پولیس جانے کے احکامات جاری کئے گئے تاہم موصوف تاحال ایف آئی اے میں براجمان ہیں۔کیا یہ کھلی بغاوت نہیں؟ کیا یہ عدالتی توہین نہیں؟ کیا یہ ادارہ اندرونی مافیا کے ہاتھوں مفلوج نہیں؟


صورتحال مزید سنگین اس وقت ہوئی جب سندھ پولیس نے 5 ستمبر 2025 کو سب انسپکٹرز کو انسپکٹرز کے عہدے پر ترقی دی۔ شرط یہ رکھی گئی کہ صرف 90 دن میں واپسی کرنے والے ہی ترقی پا سکیں گے۔ لیکن غلام اکبر سومرو، حیات میر، نصر اللہ اور خرم اسلام جیسے افسران اب بھی ایف آئی اے میں ہیں۔ گویا ترقی کے احکامات بھی محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جائیں گے۔


مزید شرمناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ماہ ایف آئی اے نے اندرونی پالیسی کے تحت 80 فیصد افسران کے تبادلے کر دیے، کئی کو صوبوں سے باہر بھیجا گیا۔ مگر بعض اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور سب انسپکٹرز نے ڈی جی ایف آئی اے کے دستخط شدہ نوٹیفکیشن تک کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا اور اپنے دفاتر پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔
اب یہ سوال پوری شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا ڈی جی ایف آئی اے اور زونل ڈائریکٹرز صرف کاغذی احکامات جاری کرنے کے لیے ہیں؟،کیا ایف آئی اے کی اصل باگ ڈور افسر شاہی کے ہاتھ میں ہے یا پسِ پردہ کوئی اور طاقت انہیں تحفظ دے رہی ہے؟،سپریم کورٹ کے فیصلوں کی اس کھلی خلاف ورزی پر کون جواب دہ ہوگا؟
یہ معاملہ صرف ایف آئی اے تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ پورے ریاستی نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے اور وزارتِ داخلہ کے احکامات پر بھی عمل درآمد ممکن نہیں تو پھر آئین اور قانون کی بالادستی کہاں کھڑی ہے؟ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو یہ سوال فوراً اٹھانا ہوگا کہ کس کے تحفظ میں یہ افسران پورے ادارے کو مفلوج کر رہے ہیں۔ اگر گریڈ 16 کا ایک افسر ڈائریکٹر جنرل کو بے بس کر سکتا ہے، تو پھر اس ملک میں ادارہ جاتی نظم و ضبط اور ریاستی رٹ کا وجود کہاں باقی بچتا ہے؟